ضیا فاروقی کی غزل

    شہر آشوب لکھوں شہر تمنا لکھوں

    شہر آشوب لکھوں شہر تمنا لکھوں اے دیار غم جاناں میں تجھے کیا لکھوں نسبتیں ساری ادھوری ہیں تو رشتہ کیسا بن کے وہ موج اٹھے خود کو میں دریا لکھوں بے حسی اتنی کہ میں خود سے بھی بیگانہ رہوں درد اتنا ہے کہ بیگانوں کو اپنا لکھوں حسن کے روپ ہیں اتنے کہ قلم حیراں ہے عشق میں ڈوب ہی جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی سکوں تو کبھی اضطراب بھی جھیلا

    کبھی سکوں تو کبھی اضطراب بھی جھیلا کھلی جو آنکھ تو انجام خواب بھی جھیلا قدم قدم پہ پرانے سبق بھی یاد آئے قدم قدم پہ بدلتا نصاب بھی جھیلا بیاض دل کے سنہرے حروف بھی چومے کتاب جاں پہ لکھا انتساب بھی جھیلا ہمارا حق بھی مسلم تھا قطرے قطرے پر ہمیں نے تشنہ لبی کا عذاب بھی جھیلا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیسے میں سدا بے بال و پر اڑتا رہا

    جانے کیسے میں سدا بے بال و پر اڑتا رہا دوستوں کے شہر میں مثل خبر اڑتا رہا عمر کی یہ تیز گامی اور پھر تیرا خیال ایک سایہ سا پس گرد سفر اڑتا رہا کیسے کیسے امتحاں تو نے لئے اے زندگی پھر بھی میں بازو شکستہ عمر بھر اڑتا رہا جانے کیا سمجھا کے اس کو لے گئی پاگل ہوا دیر تک پتہ شجر سے ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    قناعت عمر بھر کی گھر کے بام و در پہ رکھی تھی

    قناعت عمر بھر کی گھر کے بام و در پہ رکھی تھی میں زیر آسماں تھا دھوپ میرے سر پہ رکھی تھی تعجب کیا جو اب بھی ڈھونڈتے ہیں سنگ در کوئی کہ ہم نے ابتدا تہذیب کی پتھر پہ رکھی تھی وہی چہرے لہو کی گرم بازاری میں شامل تھے جنہوں نے اپنی گردن بڑھ کے خود خنجر پہ رکھی تھی میں عاشق ہوں بدل ڈالا ...

    مزید پڑھیے

    زمیں تھی سخت مجھے کوئی نقش پا نہ ملا

    زمیں تھی سخت مجھے کوئی نقش پا نہ ملا تری گلی سے جو نکلا تو راستہ نہ ملا دعا تھی چیخ تھی یا احتجاج تھا کیا تھا ہلے تھے ہونٹ مگر حرف مدعا نہ ملا بدن کی قید سے چھوٹا تو لوگ پہچانے تمام عمر کسی کو مرا پتا نہ ملا میں چاہتا تھا کہ تیور بھی دیکھ لے میرے غنیم جب بھی ملا مجھ سے غائبانہ ...

    مزید پڑھیے

    مری آنکھوں میں جو تھوڑی سی نمی رہ گئی ہے

    مری آنکھوں میں جو تھوڑی سی نمی رہ گئی ہے بس یہی عشق کی سوغات بچی رہ گئی ہے وقت کے ساتھ ہی گل ہو گئے وحشت کے چراغ اک سیاہی ہے جو طاقوں پہ ابھی رہ گئی ہے اور کچھ دیر ٹھہر اے مری بینائی کہ میں دیکھ لوں روح میں جو بخیہ گری رہ گئی ہے آئینو تم ہی کہو کیا ہے مرے ہونٹوں پر لوگ کہتے ہیں کہ ...

    مزید پڑھیے

    مری آہ و فغاں سے بے سماعت ہو گئے ہو کیا

    مری آہ و فغاں سے بے سماعت ہو گئے ہو کیا ابھی تو ابتدا کی ہے ابھی سے سو گئے ہو کیا بھرے بازار میں تنہائیوں کو ڈھونڈنے والو مرے ذوق جنوں میں تم بھی شامل ہو گئے ہو کیا وہ گل جس کے لئے یہ آسماں موسم بدلتا ہے اسی کا بیج میری خاک جاں میں بو گئے ہو کیا کوئی آواز کیوں دیتے نہیں سانسوں کے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہونے کا ہر اک لمحہ پتا دیتی ہوئی

    اپنے ہونے کا ہر اک لمحہ پتا دیتی ہوئی یاد ہیں مجھ کو وہ دو آنکھیں صدا دیتی ہوئی عمر بھر کی حسرتیں لادے تھکی ماندی حیات جا رہی ہے جانے کس کس کو دعا دیتی ہوئی دل کا ہر اک حکم سر آنکھوں پہ لیکن کیا کریں یہ جو ہے اک عقل اپنا فیصلہ دیتی ہوئی دیکھتے ہی دیکھتے اڑنے لگی بستی میں خاک اک ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پہ مکتب آدم کا اک نصاب ہے عشق

    زمیں پہ مکتب آدم کا اک نصاب ہے عشق لکھی گئی جو ازل میں وہی کتاب ہے عشق حدود ذات کے اندر بھی شور و شر اس کا حدود ذات کے باہر بھی اضطراب ہے عشق جنوں کی تہ سے جو ابھرے تو گوہر نایاب ہوس کی موج پہ آئے تو اک حباب ہے عشق کسی سوال کی صورت ہے کائنات تمام اور اس سوال کا آسان سا جواب ہے ...

    مزید پڑھیے

    آئنے میں پس منظر کا ابھرنا کیسا

    آئنے میں پس منظر کا ابھرنا کیسا جھیل جیسی تری آنکھوں میں یہ جھرنا کیسا عمر بھر ساتھ رہو تو کہیں مہکے آنگن کسی خوشبو کی طرح چھو کے گزرنا کیسا وہ تو اک خواہش ناکام تھی جو چیخ پڑی بے سبب اپنی ہی آواز سے ڈرنا کیسا گرد شیشوں سے ہٹاؤ تو کوئی بات بنے اندھے آئینوں کے آگے یہ سنورنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3