ہمیں تو عادت زخم سفر ہے کیا کہئے
ہمیں تو عادت زخم سفر ہے کیا کہئے یہاں پہ راہ وفا مختصر ہے کیا کہیے جدائیاں تو یہ مانا بڑی قیادت ہیں رفاقتوں میں بھی دکھ کس قدر ہے کیا کہیے حکایت غم دنیا طویل تھی کہہ دی حکایت غم دل مختصر ہے کیا کہیے مجال دید نہیں حسرت نظارہ سہی یہ سلسلہ ہی بہت معتبر ہے کیا کہیے