زہرا علوی کی نظم

    میسج

    اے غزالی آنکھوں والی سنا ہے تمہارے شہر میں چائے اچھی ملتی ہے سو میں چائے پینے آ جاؤں تم بھی کسی کیفے میں آ جانا اور سنو فرسودہ سماج کے لایعنی رسم و رواج کی بات مت کرنا چلی آنا اس نے جواباً لکھا چائے چھوڑیئے آپ ہمارے گھر تشریف لائیے ہماری فیملی سے ملیے اپنی فیملی سے ملوائیے ہم ...

    مزید پڑھیے

    مڈل کلاس

    تمہیں معلوم ہے نا ہمارا صحن چھوٹا ہے اور اس میں چند خواب ہی بہ مشکل پورے اترتے ہیں اتنا کھانا جو گھر میں آئے مہمان پر بھی پورا ہو ماں کی دوائیں وقت پر آ جائیں باپ کو اخبار روز ملتا رہے بچوں کو قدرے بہتر اسکول میں پڑھا سکیں بہن کی شادی ہو جائے بھائی بھی کسی قابل ہو جائے میں باہر جا ...

    مزید پڑھیے

    خود کلامی خاتون خانہ کی

    کچھ خاص نہیں ہے وہی روز و شب ہیں ہر دن نیا دن ہے اور دن گزر جانا ہے اوہ بچے اسکول سے آنے والے ہیں اور بچوں کے لیے لنچ بھی بنانا ہے صبح ناشتے میں میں گھن چکر بنی ہوتی ہوں ٹائم کی کمی ناشتہ ادھورا چھوڑ جانے کا اچھا بہانا ہے ارے یاد ہی نہ رہا ساس کی دوا ختم ہونے والی ہے اور کچن کا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    عدل کا فقدان

    قاتل و مقتول برابر ظالم و مظلوم برابر قلم بھی بندوق برابر معتوب و محبوب برابر اپنی گویا ساتھی کی ہر اک خاتون برابر نئی دانشوری جو پڑھی موسیٰ و قارون برابر ظلم تو سب پر سانجھا تھا بنی اسرائیل و فرعون برابر ماں چاہے روتی رہے شہید بچے اور ملعون برابر بلوچ جو گھر سے غائب ہیں سب پر ...

    مزید پڑھیے

    ایاک‌ نعبد و ایاک نستعین

    سوچتی ہوں جلتے بجھتے خیمے تھے تشنگی کی شدت سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے بند ہوتی آنکھیں تھیں اشقیا کا نرغہ تھا فتح کے نقارے تھے بے حیا اشارے تھے بیبیوں کے بینوں میں شام کے دھندلکے میں سجدہ گہ پہ سر رکھ کر عابدوں کی زینت نے حمد جب کیا ہوگا عرش ہل گیا ہوگا سجدا رو پڑا ہوگا سجدہ رو پڑا ...

    مزید پڑھیے

    وہ بولتی کچھ بھی نہیں

    ہنستی مسکراتی ہے نہ اب کھلکھلاتی ہے وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈر ڈر سی جاتی ہے خود کو پردوں میں چھپاتی ہے وہ بولتی کچھ بھی نہیں سنا ہے کسی آلی گھرانے کے کسی اچھے عہدے کے لڑکے نے اسے مسل ڈالا تھا انصاف کی عدالت میں کچھ نوٹوں کے بدلے میں انصاف کچل ڈالا تھا اس کے مجبور بابا نے باقی ...

    مزید پڑھیے

    بارڈر لائن

    نئی نسلوں کے سچے لوگ ہماری باتوں پہ ہنس رہے ہیں ہمارے ملکوں کی سرحدوں کو بڑی ہی حیرت سے تک رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کیسے یہ عجیب لوگ تھے جنہوں نے نسلیں کی نسلیں لکیروں پر رگید ڈالیں جوانیاں لڑائیوں میں پسیج ڈالیں اپنے خون بہانے والے یہ کیسے لوگ تھے آنے والی نئی نسلیں یہ جان لیں ...

    مزید پڑھیے

    طبیعت کے رنگ

    کبھی کبھی جی یہ چاہتا ہے چاند تک کی سیڑھی بناؤں بادل ہوا میں اڑا دوں لے کر رنگوں کی کچی پنسل رنگولی سی قوس قزح بناؤں چاند سے کھیلوں آبشار فضا میں بہاؤں کبھی کبھی جی چاہتا ہے کچھ ان چاہا سا

    مزید پڑھیے

    شکست آرزو

    وہ جا رہا تھا اور میں نے بس یہ کہا تھا سنو زیادہ دیر مت کرنا وقت رہتے پلٹ آنا اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ہم جب ملیں گے بہاریں ہوں گی وقت کچھ نہیں بگاڑے گا آج وہ پلٹ آیا ہے اسے میری سیاہ آنکھیں بہت پسند ہیں مگر سیاہ حلقے نہیں اور میری آنکھوں کی روشنی گہرے حلقوں کے بادل ...

    مزید پڑھیے

    ادھوراپن

    تم جو کہتے ہو مجھ سے اکثر کے نام تیرے پہ نظم کہہ دوں سنو پھر تم میں چاہتی ہوں سرد رتوں کی اداس شامیں میں سنگ تیرے یوں بتاؤں کلائیاں سونی پڑی ہیں کب سے میں نام تیرے کنگن پہنوں گلاب گجروں سے خوب مہکوں خواب آنکھوں سے خود جو دیکھوں تمہیں دکھاؤں گہری نیندوں سے فجر کے لئے خود جاگوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2