Zeeshan Sahil

ذیشان ساحل

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ اپنی نظموں کے لئے معروف

One of the most prominent post modern poets, known for his valiant fight against a fatal illness.

ذیشان ساحل کی نظم

    شاعر

    اگر مجھے اکیلا نہیں دیکھ سکتے تو رہنے دو اسی طرح اداس یہ تو مت کہو کہ ہمارے کمرے میں رکھی ہوئی سب سے آخری کرسی پر بیٹھ جاؤ یا ہمارے جوتوں کے پاس کھڑے ہو کر مسکراتے رہو یا پرانا فرنیچر چمکانے والی پالش کے لیے ایک نئی نظم لکھ دو میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی بادل کسی پھول کسی ہوا کسی ...

    مزید پڑھیے

    آدھی زندگی

    آسمان کا ایک حصہ میرے دیکھنے کے لیے ہے اور زمین کا ایک حصہ تمہارے چلنے کے لیے سورج تمہاری آنکھوں سے نکلتا اور چاند میرے دل میں ڈوب جاتا ہے سمندر کا شور تمہارے دل میں بند ہے اور دریا کی خاموشی میری آنکھوں میں تم ایک کشتی میں سفر کرتی ہو اور میں اس کے ساتھ ساتھ اڑنے والے بادل ...

    مزید پڑھیے

    رنگ

    لڑکی تصویریں بناتی ہے سفید کاغذ پر ادھر سے ادھر کو بہت ساری لکیریں ڈالتی ہے ان میں کوئی بھی لکیریں ایک دوسرے کو چھو کر نہیں گزرتی شہر سے باہر جانے والی سڑکوں کی طرح سب لکیریں کسی نئی جگہ پہنچا دیتی ہیں ہم وہاں سے واپس نہیں آ سکتے لکیر کے آخری سرے پر ہمیں ٹھہرا دیکھ کے لڑکی ...

    مزید پڑھیے

    عوام

    مشکل وقت میں اگر کچھ لوگ ہماری مدد نہیں کر رہے تو ہمیں ان کے بارے میں سوچنا ترک نہیں کرنا چاہیئے اور جو لوگ اپنی آوازوں سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں ہمیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہیئے بہت زیادہ کسمپرسی کے عالم میں ہمیں صرف نعرے نہیں لگانے چاہئیں بہت زیادہ بے بسی کی حالت ...

    مزید پڑھیے

    ہوا

    بہت دن سے کئی ان دیکھے الزامات کے باعث ہوا مطلوب ہے ہم کو ہوا تاریک راتوں میں ہمارے خواب لے جاتی ہے اور واپس نہیں کرتی ہمارے خط چراتی ہے ہمارے دل کی باتیں راہ گیروں کو سناتی ہے ہمارے گیت میدانوں گلی کوچوں میں گاتی ہے ہم اپنے دل کے زنگ آلود خانوں میں محبت جوڑ کے رکھتے ہیں لیکن شام ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    پہلی بار ستارہ بننا دوسری بار بکھر جانا پہلی بار ٹھہر ناول میں دوسری بار گزر جانا پہلی بار اسے خط لکھنا دوسری بار جلا دینا پہلی بار محبت کرنا دوسری بار بھلا دینا

    مزید پڑھیے

    ایک منظر کی خاموشی

    بہت دور شہر سے باہر شاید کسی اور شہر میں ایک کمرہ ہے اس کی ساری کھڑکیاں صبح سے کھلی ہوئی ہیں کوئی نہیں ہے جو انہیں بند کر دے یا اس گرد کو صاف کر دے جو دیوار پر لگے پورٹریٹ کو دھندلا کر رہی ہے ہوا نے گزرتے ہوئے کاغذوں کو پیلا کر دیا لوہے کی کرسی پر بیٹھ کے اب کوئی کسی کو یاد نہیں ...

    مزید پڑھیے

    (34)

    خدا گر ہمیں اک پرندہ بناتا جہاں میں ہم اک آشیانہ بناتے کسی سبز وادی میں اپنا نشیمن یا صحن چمن کو ٹھکانہ بناتے کبھی اڑتے بادل میں ہوتا بسیرا کبھی ڈالتے کنج وحشت میں ڈیرا کبھی دامن کوہ ہوتا ہمارا کبھی بنتا گھر اک ندی کا کنارا کبھی گیت گاتے گھٹاؤں کے نیچے کبھی ہوتے پاگل ہواؤں کے ...

    مزید پڑھیے

    خط

    شہر خط لکھتا ہے سب سے پہلے تاریخ یعنی جس دن خط لکھا گیا جگہ یعنی جہاں سے خط لکھا گیا اور پھر وقت جس وقت شہر نے یہ خط لکھنا شروع کیا شاید وہ رو رہا تھا نیلی روشنائی سے لکھے گئے لفظ جگہ جگہ سے پھیل گئے ہیں اور کاغذ اتنا خستہ ہے کہ اگر خط زیادہ دیر ڈاک میں رہتا تو شاید لفافے کے اندر ہی ...

    مزید پڑھیے

    دوست

    میں بہت اکیلا ہوں تم مجھ سے دوستی کر لو شہر کہتا ہے اور اپنے ہاتھ ہماری طرف پھیلا دیتا ہے ہم اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں شہر کے ہاتھ کہنیوں تک جلے ہوئے ہیں ایسی حالت میں کوئی کسی کے ہاتھ بھلا کیسے تھام سکتا ہے کوئی کسی کے ساتھ کیسے دوستی کر سکتا ہے ہم اپنا منہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4