درد پرسش سے سوا ہوتا ہے
درد پرسش سے سوا ہوتا ہے یہی انجام وفا ہوتا ہے اٹھ کے جایا نہ کرو گلشن سے ہم سے ہر پھول خفا ہوتا ہے ان کی یادوں کی جب آتی ہے بہار زخم دل اور ہرا ہوتا ہے آپ کہتے ہیں ہمیں بھول گئے آپ کے کہنے سے کیا ہوتا ہے
درد پرسش سے سوا ہوتا ہے یہی انجام وفا ہوتا ہے اٹھ کے جایا نہ کرو گلشن سے ہم سے ہر پھول خفا ہوتا ہے ان کی یادوں کی جب آتی ہے بہار زخم دل اور ہرا ہوتا ہے آپ کہتے ہیں ہمیں بھول گئے آپ کے کہنے سے کیا ہوتا ہے
کسی بازار میں سودا نہیں ہونے دیتے وہ ہمیں اور کسی کا نہیں ہونے دیتے جب سنبھلتی ہے طبیعت تو چلے آتے ہیں آپ اپنے بیمار کو اچھا نہیں ہونے دیتے تم نے کیوں دیکھا پلٹ کر ہمیں وقت رخصت کیوں کسی حال میں تنہا نہیں ہونے دیتے اب بھی روشن ہے بزرگوں کی حویلی کے چراغ ہم کسی نقش کو دھندلا ...
تڑپ رہی ہے زمیں اپنی سنگ در کے لیے بس ایک سجدہ ہی کافی ہے عمر بھر کے لیے اجالے بانٹ کے دنیا کو یہ خیال آیا کوئی چراغ نہیں رکھا اپنے گھر کے لیے مجھے یقین ہے دیکھوں گا اپنی آنکھوں سے چراغ دل کو جلایا ہے جس سحر کے لیے
وہ خیالوں میں بھی اس طرح گزر جاتے ہیں ان کے گیسو مرے شانوں پہ بکھر جاتے ہیں زندگی ان کی بھی ہے ایک مہاجر کی طرح اشک بے چارے کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں پہلے خود آ کے سنورتے تھے خود آئینے میں اب انہیں دیکھ کے آئینے سنور جاتے ہیں حادثے اتنے گزرتے ہیں ہمارے دل پر ہم تو بچوں کی طرح ...