ضمیر کاظمی کی غزل

    نہ شام غم نہ صبح معتبر ہوں

    نہ شام غم نہ صبح معتبر ہوں تماشائے جمال دیدہ ور ہوں کوئی رت ہو وہی بے برگ و باری زمیں پر ایک بے موسم شجر ہوں کہیں اک لمحۂ گزراں کا سایہ کہیں آئندہ صدیوں کا سفر ہوں ہوں حرف ناشنیدہ بے سخن کو شعور دیدۂ اہل نظر ہوں کبھی دل کا کبھی دنیا کا ماتم میں اپنی ذات میں اک چشم تر ہوں نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2