ضمیر کاظمی کی غزل

    گر بنانا ہے محبت کا کوئی گھر صاحب

    گر بنانا ہے محبت کا کوئی گھر صاحب دستکیں دیجئے لوگوں کے دلوں پر صاحب جتنی بڑھتی گئیں تنہائیاں جسم و جاں کی گہرا ہوتا گیا آنکھوں کا سمندر صاحب دور تک اس کو بچھڑتے ہوئے ہم دیکھ سکیں روک لو آنسو کہ دھندلائے نہ منظر صاحب شہر جادو کا ہے چلتے رہو بس چلتے رہو مڑ کے دیکھو گے تو ہو جاؤ ...

    مزید پڑھیے

    چور ہے شیشۂ دل ایک نظر اور سہی

    چور ہے شیشۂ دل ایک نظر اور سہی اک نیا خواب مرے دیدۂ تر اور سہی کیوں نہ دو چار قدم ساتھ بھی چل کر دیکھیں ہے مری راہ جدا تیرا سفر اور سہی اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں سے چلو مل آئیں اے مری زندگی اک زخم جگر اور سہی اب کے شاید کسی منزل کا پتہ مل جائے رائیگاں لمحوں میں اک راہ گزر اور ...

    مزید پڑھیے

    یوں نہ جاؤ کہ بہت رات ابھی باقی ہے

    یوں نہ جاؤ کہ بہت رات ابھی باقی ہے میرے حصے کی ملاقات ابھی باقی ہے رات مہکے گی تو خواہش بھی بہک جائے گی جو نہ ہو پائی ہے وہ بات ابھی باقی ہے خیر سے مل گئیں راتیں وہ مرادوں والی آپ کے حسن کی خیرات ابھی باقی ہے چاندنی رات کا ہر قرض اتارا ہم نے پیاسے ارمانوں کی بارات ابھی باقی ...

    مزید پڑھیے

    نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے

    نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے تماش بین ہمیشہ سے رقص گاہ میں ہے بنام عشق مری زندگی ترے قرباں مگر نصیب مرا بے طلب نباہ میں ہے میں جانتا ہوں کہ ہے کس کی آنکھ کا آنسو وہ ایک لعل جو اب تک مری کلاہ میں ہے دلوں کے رشتے ہیں سب الوداعی منزل میں کہ ناگزیر اذیت ہر ایک چاہ میں ...

    مزید پڑھیے

    کہاں دھواں ہے کہاں گھر سمجھ میں آئے گا

    کہاں دھواں ہے کہاں گھر سمجھ میں آئے گا ہوا چلے گی تو منظر سمجھ میں آئے گا تلاش گوہر نایاب سطح پر کیوں ہے بھنور میں اترو سمندر سمجھ میں آئے گا ابھی سے تبصرہ شخصیتوں پہ ٹھیک نہیں ہو گفتگو تو سخنور سمجھ میں آئے گا ہر ایک خواب نئی صبح کی امانت ہے کر انتظار مقدر سمجھ میں آئے ...

    مزید پڑھیے

    چلو پی لیں کہ یار آئے نہ آئے

    چلو پی لیں کہ یار آئے نہ آئے یہ موسم بار بار آئے نہ آئے ہم اس کی راہ دیکھیں گے ہمیشہ وہ جان انتظار آئے نہ آئے یہ سوچا ہے کہ اس کو بھول جائیں اب اس دل کو قرار آئے نہ آئے گلابوں کی طرح تم تازہ رہنا زمانے میں بہار آئے نہ آئے ضمیرؔ اس زندگی سے کیوں خفا ہو اسے پھر تم پہ پیار آئے نہ ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کی سلطنت میں خدا کے خلاف ہیں

    دنیا کی سلطنت میں خدا کے خلاف ہیں شہر چراغ میں جو ہوا کے خلاف ہیں فرسودہ و فضول روایت کے نام پر اپنے تمام دوست وفا کے خلاف ہیں خاموشیوں کے دشت میں کیوں چیختے ہو تم قانون سب یہاں کے صدا کے خلاف ہیں کب سے اڑا رہی ہیں قناعت کی دھجیاں یہ حاجتیں جو صبر و رضا کے خلاف ہیں انسانیت کی ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا ہو کے بھی کب اپنے بس میں رہتا ہے

    ہمارا ہو کے بھی کب اپنے بس میں رہتا ہے یہ دل ہمیشہ تری دسترس میں رہتا ہے اسے شرابی نہ سمجھو کہ صبح ہوتے ہی وہ مندروں کے سنہرے کلس میں رہتا ہے ہے اعتبار سے بے اعتبار سرحد تک وہ فاصلہ جو مرے ہم نفس میں رہتا ہے تمنا یہ ہے کہ کچھ لمحے دل کے نام کریں مگر دماغ کہ حرص و ہوس میں رہتا ...

    مزید پڑھیے

    مجنوں بھی خیریت سے ہے لیلیٰ مزے میں ہے

    مجنوں بھی خیریت سے ہے لیلیٰ مزے میں ہے اک تم مرے نہ ہو سکے دنیا مزے میں ہے تتلی اداس ہو کے چھپی دیکھتی رہی پھولوں سے کھیلتا ہوا بھنورا مزے میں ہے دنیا کے سارے رنگ وہی ہیں تمہارے بعد مجھ کو اکیلا کرکے زمانہ مزے میں ہے موسم تمہارے حسن کے مستی شباب کی رہتے ہو جس میں تم وہ علاقہ مزے ...

    مزید پڑھیے

    اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا

    اس شام کو جب روٹھ کے میں گھر سے چلا تھا اک سایہ بھی بچھڑے ہوئے منظر سے چلا تھا اب آسماں ہاتھوں میں ہے پیروی میں زمیں ہے میں بے سر و سامان ترے در سے چلا تھا بے بس اسے کر دے گی ہواؤں کی سیاست بادل کا وہ ٹکڑا جو سمندر سے چلا تھا دینے لگا آکاش کے دروازوں پہ دستک انسان کا وہ دور جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2