نیا سال
نیا سال آیا کوئی بھی نہ تحفہ ہمارے لئے حسب معمول لایا خدا جانے کب تک ہم ان دشت ہاتھوں میں کشکول امید تھامے بشارت کی خیرات پانے کی خاطر صف صبر میں ایستادہ رہیں گے
نیا سال آیا کوئی بھی نہ تحفہ ہمارے لئے حسب معمول لایا خدا جانے کب تک ہم ان دشت ہاتھوں میں کشکول امید تھامے بشارت کی خیرات پانے کی خاطر صف صبر میں ایستادہ رہیں گے
مرے یار تیرا مرا ایک ہی راستہ ہے کہ پلکوں سے صحرا بہ صحرا چمکدار ذرات چن کر شرابور مٹھی میں محفوظ کرتے رہیں اور سر شام پھیلا کے ان کو ہتھیلی پہ دیکھیں کہ آیا کوئی ریزۂ زر بھی حاصل ہوا یا نہیں کتاب مقدر بھی نقش اضافہ نہ اترے تو بطن تفکر کو امید کے نان شیریں سے بھر کر شگفتہ شعاعوں ...