Zameer Azhar

ضمیر اظہر

  • 1921

ضمیر اظہر کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    میں کس لئے ہوں میں کیا ہوں کیوں آ گیا ہوں یہاں

    میں کس لئے ہوں میں کیا ہوں کیوں آ گیا ہوں یہاں بہ روئے آئینہ کب سے کھڑا ہوں میں حیراں بڑی عریض و وسیع ہے بہت کشادہ ہے ہے تنگ دستوں پہ پھر تنگ کیوں فضائے جہاں جھلک دکھا کے اچانک سدھار جاتا ہے مثال خواب حسیں ہے حقیقت انساں میں سر نگوں ہی رہا غایت ندامت سے پلٹ گئی مرے پاس آ کے رحمت ...

    مزید پڑھیے

    فرقت کی شب فضا پہ اداسی محیط ہے

    فرقت کی شب فضا پہ اداسی محیط ہے گلزار پر ہوا پہ اداسی محیط ہے مغموم ماہ و گل ہیں پریشاں ہے چاندنی فطرت کی ہر ادا پہ اداسی محیط ہے تارے چمک رہے ہیں پر اپنے خیال میں تاروں کی کل ضیا پہ اداسی محیط ہے آ جاؤ اب خدا کے لئے بہر اتصال معمورۂ وفا پہ اداسی محیط ہے اظہرؔ کو آج دیکھ تو لو ...

    مزید پڑھیے

    آ گیا پھر بہار کا موسم

    آ گیا پھر بہار کا موسم حسن کے کاروبار کا موسم کس ادا سے سنور کے آیا ہے رنگ لیل و نہار کا موسم اہل دل کے لیے پلٹ آیا فرصت انتظار کا موسم خود بخود پھول بے حجاب ہوئے جوش میں ہے نکھار کا موسم اب کھلے گا بھرم وفاؤں کا رنگ لائے گا پیار کا موسم کیوں نہ ہو ذکر گل رخاں اظہرؔ اوج پر ہے ...

    مزید پڑھیے

    جاگے جو خواب غم سے پھر نیند ہی نہ آئی

    جاگے جو خواب غم سے پھر نیند ہی نہ آئی دہشت کے زیر و بم سے پھر نیند ہی نہ آئی معلوم ہی نہیں کچھ ہم کیسے سو گئے تھے ڈر کر رخ ستم سے پھر نیند ہی نہ آئی تاروں سے رابطے کچھ قائم رہے ہمہ شب اس شغل مغتنم سے پھر نیند ہی نہ آئی گونجی سکوت شب میں آواز جانے کس کی ہم کو تو خوف غم سے پھر نیند ہی ...

    مزید پڑھیے

    سکون دل نہ سہی جوش اضطراب تو ہے

    سکون دل نہ سہی جوش اضطراب تو ہے حساب تیری عنایت کا بے حساب تو ہے یہاں قیام مسرت کا نقش کیسے ملے جہاں مصائب پیہم کا ایک باب تو ہے فسانہ دل کا پہنچتا ہے دیکھیے ان تک نگاہ شوق سر بزم بے حجاب تو ہے قفس اداس فضا دم بخود چمن ویراں بقدر درد فغاں آج کامیاب تو ہے خدا کا شکر کہ اظہرؔ بہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    نیا سال

    نیا سال آیا کوئی بھی نہ تحفہ ہمارے لئے حسب معمول لایا خدا جانے کب تک ہم ان دشت ہاتھوں میں کشکول امید تھامے بشارت کی خیرات پانے کی خاطر صف صبر میں ایستادہ رہیں گے

    مزید پڑھیے

    ایک ہی راستہ

    مرے یار تیرا مرا ایک ہی راستہ ہے کہ پلکوں سے صحرا بہ صحرا چمکدار ذرات چن کر شرابور مٹھی میں محفوظ کرتے رہیں اور سر شام پھیلا کے ان کو ہتھیلی پہ دیکھیں کہ آیا کوئی ریزۂ زر بھی حاصل ہوا یا نہیں کتاب مقدر بھی نقش اضافہ نہ اترے تو بطن تفکر کو امید کے نان شیریں سے بھر کر شگفتہ شعاعوں ...

    مزید پڑھیے