Zameer Azhar

ضمیر اظہر

  • 1921

ضمیر اظہر کی غزل

    میرے خورشید و قمر آئے نہیں

    میرے خورشید و قمر آئے نہیں ظلمتوں کے چارہ گر آئے نہیں فصل گل کی خاصیت کو کیا ہوا شاخ دل پر برگ و بر آئے نہیں خستہ سامانی ہماری دیکھنے لوگ آتے تھے مگر آئے نہیں میں فقط باغوں کا رکھوالا رہا میرے حصے میں ثمر آئے نہیں گدلے جوہڑ چیتھڑوں سی بستیاں اہل دل کیا اس نگر آئے نہیں

    مزید پڑھیے

    کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں

    کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں ایسا گھور اندھیرا دیکھا کہیں نہیں کس ظالم نے پر پیڑوں کے کاٹ دیے آگ اگلتی دھوپ میں سایہ کہیں نہیں تشنہ روح کی پیاس بجھانے پہنچے تھے دریا میں بھی پانی پایا کہیں نہیں کانچ کی صورت سارے سپنے ٹوٹ گئے چھم سے برسنے بادل آیا کہیں نہیں محفل محفل اظہرؔ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2