Zameer Atraulvi

ضمیر اترولوی

ضمیر اترولوی کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    جدا اس جسم سے ہو کر کہیں تحلیل ہو جاتا

    جدا اس جسم سے ہو کر کہیں تحلیل ہو جاتا فنا ہوتے ہی لافانی میں میں تبدیل ہو جاتا مرے پیچھے اگر ابلیس کو آنے نہ دیتا تو سراپا میں ترے ہر حکم کی تعمیل ہو جاتا جو ہوتا اختیار اپنے مقدر کو بدلنے کا تمناؤں کی میں اک صورت تکمیل ہو جاتا مجھے پہچان کر کوئی زمانے کو بتا دیتا تو مثل نکہت ...

    مزید پڑھیے

    کماں پہ چڑھ کے بہ‌ شکل خدنگ ہونا پڑا

    کماں پہ چڑھ کے بہ‌ شکل خدنگ ہونا پڑا حریف امن سے مصروف جنگ ہونا پڑا یہاں تھی دشمنی انساں سے پیار پتھر سے مجھے بھی آخرش اک روز سنگ ہونا پڑا حسد کی آگ میں جل جل کے لوگ مرنے لگے مجھے سمیٹ کے وسعت کو تنگ ہونا پڑا رہا جو بر سر پیکار میں مقدر سے تو اس حریف کو حیران‌ و دنگ ہونا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسا کام اے دست مسیح کر ڈالا

    یہ کیسا کام اے دست مسیح کر ڈالا جو دل کا زخم تھا وہ ہی صحیح کر ڈالا شب سیاہ کا چہرہ اداس دیکھا تو نکل کے چاند نے اس کو ملیح کر ڈالا ذرا سا جھانک کے تاریکیوں سے سورج نے ملیح چہرۂ شب کو صبیح کر ڈالا میں کیسے عقل کا پیکر سمجھ لوں انساں کو خود اپنی زیست کو جس نے قبیح کر ڈالا کل اس نے ...

    مزید پڑھیے

    امیروں کے برے اطوار کو جو ٹھیک سمجھے ہے

    امیروں کے برے اطوار کو جو ٹھیک سمجھے ہے مری حق بات کو وہ قابل تشکیک سمجھے ہے بہت مشکل ہے جو اس کی غریبی دور ہو جائے عجب خوددار ہے امداد کو بھی بھیک سمجھے ہے مرے بارے میں اس کے کان بھرتا ہے کوئی شاید بیاں توصیف کرتا ہوں تو وہ تضحیک سمجھے ہے ترے خط تیری تصویریں شکستہ دل کے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    راحتوں کے دھوکے میں اضطراب ڈھونڈے ہیں

    راحتوں کے دھوکے میں اضطراب ڈھونڈے ہیں ہم نے اپنی خاطر ہی خود عذاب ڈھونڈے ہیں یہ تو اس کی عادت ہے روز گل مسلتا ہے آج بھی مسلنے کو کچھ گلاب ڈھونڈے ہیں رات آندھی آنے پر اڑ گئے تھے خیمے سب غافلوں نے مشکل سے کچھ طناب ڈھونڈے ہیں تیری حکمرانی بھی ختم ہونے والی ہے ہم نے کچھ کتابوں میں ...

    مزید پڑھیے

تمام