Zakariya Shaz

زکریا شاذ

زکریا شاذ کی غزل

    کہاں دن رات میں رکھا ہوا ہوں

    کہاں دن رات میں رکھا ہوا ہوں عجب حالات میں رکھا ہوا ہوں تعلق ہی نہیں ہے جن سے میرا میں ان خدشات میں رکھا ہوا ہوں کبھی آتا نہیں تھا ہاتھ اپنے اب اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہوں ذرا بھی رہ نہیں سکتا ہوں جن میں میں ان جذبات میں رکھا ہوا ہوں جلائے کس طرح یہ دھوپ مجھ کو کہیں برسات میں ...

    مزید پڑھیے

    کیا نظارہ تھا میری آنکھوں میں

    کیا نظارہ تھا میری آنکھوں میں جب وہ سارا تھا میری آنکھوں میں ایک طوفان تھا کہیں برپا اور دھارا تھا میری آنکھوں میں حال کیسا یہ تو نے کر ڈالا کتنا پیارا تھا میری آنکھوں میں کچھ بھی دیکھا نہیں تھا میں نے جب ہر نظارہ تھا میری آنکھوں میں چاند جب تک نظر نہ آیا تھا تارا تارا تھا ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے

    دھوپ سروں پر اور دامن میں سایا ہے سن تو سہی جو پیڑوں نے فرمایا ہے کیسے کہہ دوں بیچ اپنے دیوار ہے جب چھوڑنے کوئی دروازے تک آیا ہے اس سے آگے جاؤ گے تب جانیں گے منزل تک تو راستہ تم کو لایا ہے بادل بن کر چاہے کتنا اونچا ہو پانی آخر مٹی کا سرمایا ہے آخر یہ ناکام محبت کام آئی تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے

    دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے شہر کا شہر دعاؤں میں گھرا رہتا ہے نہ بلاؤ تو بلاتا ہی نہیں ہے کوئی جس کو دیکھو وہ اناؤں میں گھرا رہتا ہے کوئی منزل ہے کہ دوری میں چھپی ہے کب سے کوئی رستہ ہے کہ پاؤں میں گھرا رہتا ہے دل کو فرصت نہیں ملتی کبھی امیدوں سے یہ سکھی شاذؔ گداؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے

    ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے بھر ڈالا انہیں بھی مری بے دار نظر نے جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تری خاطر وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے کل رات تری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا آنسو تھے کہ پلکوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    سنگ کسی کے چلتے جائیں دھیان کسی کا رکھیں

    سنگ کسی کے چلتے جائیں دھیان کسی کا رکھیں ہم وہ مسافر ساتھ اپنے سامان کسی کا رکھیں رنگ برنگے منظر دل میں آنکھیں خالی خالی ہم آواز کسی کو دیں امکان کسی کا رکھیں اک جیسے ہیں دکھ سکھ سب کے اک جیسی امیدیں ایک کہانی سب کی کیا عنوان کسی کا رکھیں دن بھر تو ہم پڑھتے پھریں اپنی غزلیں ...

    مزید پڑھیے

    کس قیامت کی گھٹن طاری ہے

    کس قیامت کی گھٹن طاری ہے روح پر کب سے بدن طاری ہے کون یہ سایہ فگن ہے آخر میرے سورج پہ گہن طاری ہے بات کیا اور نئی ہم سوچیں جب وہی چرخ کہن طاری ہے صرف ہم ہی تو نہیں ٹوٹے ہیں راستوں پر بھی تھکن طاری ہے شاذؔ اڑتا ہی چلا جاتا ہوں کیسی خوشبو کی لگن طاری ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2