ہر چند کہ اب مجھ سے ستم اٹھ نہیں سکتا
ہر چند کہ اب مجھ سے ستم اٹھ نہیں سکتا لیکن ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا کیا ضعف نے شرمندہ کیا صبر کے آگے فرقت میں جو یہ بار الم اٹھ نہیں سکتا جو کعبہ میں ہے ہے وہی بت خانے میں جلوہ اک پردہ ہے سو شیخ حرم اٹھ نہیں سکتا تو ہووے خفا اور نہ در سے ترے اٹھوں سر ہی ترے قدموں کی قسم اٹھ ...