Zahid Shamsi

زاہد شمسی

زاہد شمسی کی غزل

    خواب ستارے ہوتے ہوں گے لیکن آنکھیں ریت

    خواب ستارے ہوتے ہوں گے لیکن آنکھیں ریت دن دریاؤں کے ہمجولی ہیں اور راتیں ریت ایک فقیر نے میری جانب دیکھا اور پھر میں مٹی کی ڈھیری کی صورت تھا اور سانسیں ریت میں سرسبز جزیرے جیسا تھا پر دشت ہوا اس نے مجھ سے اتنا کہا تھا تیری باتیں ریت موتی ٹوٹنے لگتے ہیں جب پتھر بات کریں آئینوں ...

    مزید پڑھیے

    عاجزی کو چلن کیے ہوئے ہیں

    عاجزی کو چلن کیے ہوئے ہیں خاک اپنا بدن کئے ہوئے ہوں ہجر اک مستقل لباس مرا جس کو میں زیب تن کیے ہوئے ہوں چند آنسو مرا اثاثہ ہیں جن کو میں وقف فن کیے ہوئے ہوں آبلے اگ رہے ہیں پاؤں میں دشت سرو سمن کیے ہوئے ہوں گھر میں رہ کر بھی گھر نہیں رہتا خود کو یوں بے وطن کیے ہوئے ہوں موت سے ...

    مزید پڑھیے

    کسی منظر کے پس منظر میں جا کر

    کسی منظر کے پس منظر میں جا کر چلو دیکھیں کسی پتھر میں جا کر گھنے جنگل نے مجھ پر راز کھولا نکل جاتا ہے ہر ڈر ڈر میں جا کر خود اپنی ذات ہو جاتی ہے معدوم خود اپنی ذات کے جوہر میں جا کر مرے دل کی تمنا بن گیا ہے وہ چہرہ میری چشم تر میں جا کر سمٹ جاتے ہیں میرے ساتھ مجھ میں مرے پاؤں مری ...

    مزید پڑھیے

    میں کناروں کو رلانے لگا ہوں

    میں کناروں کو رلانے لگا ہوں پھول دریا میں بہانے لگا ہوں کھیل کو ختم کرو جلدی سے ورنہ میں پردہ گرانے لگا ہوں دل سے جاؤں تو بتانا مجھ کو تیری محفل سے تو جانے لگا ہوں یوں لگی مجھ کو محبت تیری جیسے میں بوجھ اٹھانے لگا ہوں پہلے میں اپنا اڑاتا تھا مذاق اور اب خاک اڑانے لگا ہوں کتنی ...

    مزید پڑھیے