Zahid Masood

زاہد مسعود

زاہد مسعود کی نظم

    دار الامان کے دروازے پر

    مجھے زلزلہ زدہ علاقے سے اٹھایا گیا تھا یا شاید سیلاب زدہ علاقے سے مگر میرا کوئی وارث اب اس دنیا میں باقی نہیں ہے میری کم عمری میری واحد کفیل ہے اور اچھی شکل ہی اب میری زندگی کی ضامن ہے میری بے لباسی لباس سے زیادہ قیمتی اور با معنی ہے میں نے کئی بار عدالتوں میں پیشی کے دوران اپنے ...

    مزید پڑھیے

    مرے لوگو! میں خالی ہاتھ آیا ہوں

    کئی منظر بدلتے ہیں کھلی آنکھوں کے شیشے پر سلگتی خاک کا چہرہ چراغوں کا دھواں، کھڑکی، کوئی روزن۔۔۔ ہوا کے نام کرنے کو ہمارے پاس کیا باقی، بچا ہے؟ لہو کے پر لگی سڑکیں کٹے سر پر برستی جوتیوں کے شور میں جاگا ہوا بے خانماں نام و نسب، ماتم کناں گریہ کناں آنکھیں، شکستہ رو سحر کی ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی ہوتا ہے خاندان میں کیا

    میں روزانہ ایک سو روپے اجرت کا ملازم ہوں میرا بیٹا ٹائر پنکچر کی دوکان پر کام کرتا ہے اور استاد کی گالیوں اور تھپڑوں کے علاوہ تیس روپے روز کماتا ہے بیوی اور نوعمر بیٹی تین چار بڑے گھروں میں صفائی اور برتن دھوتی ہیں! مجھے یاد نہیں کہ کبھی میرے کنبے نے مل کر ناشتہ کیا ہو یا رات کے ...

    مزید پڑھیے

    بد حالی کی خود نوشت

    میری پیدائش پر قرض خواہوں نے جشن منایا مجھے پی ایل 480 کے دانۂ گندم سے بپتسمہ دیا گیا اور امداد میں ملنے والے خشک دودھ سے میری پرورش کی گئی مجھے پولیو کی جعلی قطرے پلائے گئے اور کاندھے پر جاں نشینی کی چادر ڈال کر مجھے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کا کفیل مقرر کیا گیا اب میں ...

    مزید پڑھیے

    جمہوریت

    رائے کی آزادی میری بانسری کا سر ہے جسے میری سانسوں سے نکال کر غباروں میں بھر دیا گیا ہے میرے پھول کی خوشبو کو گنڈیریوں کی ریڑھی پر رکھ کر فروخت کیا جاتا ہے میری بھوک کو میرا بھائی آدھی روٹی کے ساتھ چرا لیتا ہے ہر سال میرے چراغ کی لو انکم ٹیکس کے ساتھ کاٹ لی جاتی ہے اور ہر عید ...

    مزید پڑھیے

    نائن الیون

    جب گرد و غبار کا طوفان میری جانب بڑھنے لگا تو مجھے یاد آیا کہ پوری دنیا میں آنکھیں ایک جیسے آنسو بہاتی ہیں آگ میں ابلتی ہوئی ہڈیاں ایک جیسی رنگت اختیار کر لیتی ہیں لہو جب جم جاتا ہے اس کے سرخ سے سیاہ ہونے کا دورانیہ ایک جتنا ہوتا ہے گرد و غبار کے طوفان نے سب کچھ ڈھانپ لیا مگر ...

    مزید پڑھیے

    انیسؔ ناگی کے نام

    دم وصال نگاہوں میں ہجر کا منظر مثال گردش آئینہ ایسے بولتا ہے کہ جیسے کوچۂ خاک وجود کے اندر غبار نیند کا حیرت کے راز کھولتا ہے میں جاگتا ہوں مگر شہر میرے ساتھ نہیں ہوا نے بام پہ رکھے دئیے بجھائے ہیں شب سیاہ نے ہم سب کے دل دکھائے ہیں میں بے کنار سے رستے پہ پاؤں پاؤں چلا کنارۂ مہ و ...

    مزید پڑھیے

    نشر مکرر

    وہ شام جب سڑکیں گل سرخ سے بھری ہوئیں تھیں ایوان انصاف پر اندھیرا اتر رہا تھا میں نے گردن اور کانوں کو کوٹ کے لمبے کالر میں چھپا لیا تاکہ باقی ماندہ لہو کی گردش چہرے تک نہ آ سکے ابابیلیں اپنے مسکنوں سے دیوانہ وار نکل آئیں اور گنبدوں میں بولنے والے کبوتروں نے چپ چاپ اپنی ...

    مزید پڑھیے

    انفارمیشن ٹیکنالوجی

    نظام بدل رہا ہے نئے سکے رائج ہو چکے ہیں نئے رجسٹروں پر پرانے ہندسے مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگے ہیں کی بورڈ سے زنجیر کیے گئے ہاتھ سات آسمانوں پر دستک دینے کی مشق کر رہے ہیں نیوئن سائن سے باہر آتی ہوئی لڑکی خالی جیبوں کی طرف اشارہ کر کے مسکراتی ہے اور نوجوانی شیح نیک ٹائیاں ...

    مزید پڑھیے

    منفی شعور کا اک ورق

    کیا اس نظام کو جاگیر دار بدلے گا؟ جو میرے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے اور میرے خوابوں پر ٹیکس لگاتا ہے کیا اس نظام کو سرمایہ دار بدلے گا؟ جو مجھ سے بارہ گھنٹے کی بیگار لیتا ہے مگر آٹھ گھنٹے کی اجرت دینے پر بھی تیار نہیں! کیا دانشور اس نظام کو بدل سکتا ہے؟ مگر وہ تو ایک پلاٹ یا غیر ملکی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2