Zahid Dar

زاہد ڈار

زاہد ڈار کی نظم

    تنہائی

    یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات ایک لا محدود وسعت ایک بے معنی وجود آدمی اس ابتری کی روح ہے آدمی اس مادے کا ذہن ہے ابتری لا انتہا مادہ لا انتہا آدمی محدود ہے آدمی کا ذہن بھی محدود ہے روح بھی محدود ہے یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات جبر کا اک سلسلہ کس طرح سمجھوں اسے کرب ہے اور روح کی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے آپ سے

    میں نے لوگوں سے بھلا کیا سیکھا یہی الفاظ میں جھوٹی سچی بات سے بات ملانا دل کی بے یقینی کو چھپانا سر کو ہر غبی کند ذہن شخص کی خدمت میں جھکانا ہنسنا مسکراتے ہوئے کہنا صاحب زندگی کرنے کا فن آپ سے بہتر تو یہاں کوئی نہیں جانتا ہے گفتگو کتنی بھی مجہول ہو ماتھا ہموار کان بیدار رہیں ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    زاہد خشک ہوں دنیا میں نہ پوچھو مجھ کو دیکھنا ہو تو کسی پگ پہ کسی پیڑ کے نیچے جس کی ایک بھی شاخ نہ پتوں سے ہری ہو دیکھو یا کسی ناؤ میں جو پار جاتی ہوئی روحوں سے بھری ہو دیکھو پار جانا ہے مجھے بہتے پانی سے ادھر دور جہاں ایک وادی ہے جو ویران بھی خاموش بھی ہے ایک دیوی نے وہاں گھاس اگا ...

    مزید پڑھیے

    بیمار لڑکا

    رحم مادر سے نکلنا مرا بے سود ہوا آج بھی قید ہوں میں حکم مادر کو میں تبدیل کروں ماں کی نفرت بھری آنکھوں سے کہیں دور چلا جاؤں میں بے نیازی سے پھروں پاپ کے کانٹے چن کر روح ناپاک کروں گیت شہوت کے ہوس کے سن کر ذہن بے باک کروں ایسے جیون کی ہے حسرت اب تک پیار ...سب کہتے ہیں وہ پیار مجھے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    ایک تو خواب ڈراتے ہیں مجھے دھوپ میں زرد درختوں پہ کھلے کالے پھول پہلے پانی تھا جہاں دھول وہاں اڑتی ہے میں نے عورت کو نہیں دیکھا تھا اس کا پیغام ملا بارش میں وہ مرے پاس جب آئی تھی تو میں تنہا تھا اور اس پہلی ملاقات کی حیرانی میں آج بھی غرق ہوں میں لوگ جس وہم میں ہیں میں بھی ہوں ہے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں ستاروں اور درختوں کی خاموشی کو سمجھ سکتا ہوں میں انسانوں کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہوں میں انسانوں سے نفرت نہیں کرتا میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں میں دنیا کے راستوں پر چلنے سے معذور ہوں میں اکیلا ہوں میں لوگوں میں شامل ہونا نہیں چاہتا میں آزاد رہنا چاہتا ہوں میں خوش رہنا ...

    مزید پڑھیے

    ایک دعا

    اب بولو کہاں چھپے ہو اب کھولو بھی دروازہ اندر آنے دو مجھ کو یا خود ہی باہر آؤ پیاسے کو مت ترساؤ بس پانی کا اک قطرہ ان آنکھوں کو کافی ہے یہ پیاسی آنکھیں میری تم پانی کا ساگر ہو اب بولو کہاں چھپے ہو اب کھولو بھی دروازہ

    مزید پڑھیے

    فقط موت مجھے بھاتی ہے

    ایسے لگتا ہے کہ صحرا ہے کوئی دور تک پھیلی ہوئی ریت کو جب دیکھتا ہوں میری آنکھوں میں وہی پیاس چھلک آتی ہے روح کی پیاس چھلک آتی ہے پھر ہوا وقت کے ہاتھوں میں ہے تلوار کی مانند رواں پھر سلگتا ہوں فقط موت مجھے بھاتی ہے دل مرا آج بھی افسردہ اداس دل بدلتا ہی نہیں راستے روز بدل لیتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر میں

    خوبصورت ہے زمیں دھوپ میں چمکے ہوئے اس شہر میں زندگی دلچسپ ہے عقل کی باتیں جہنم کی دھدکتی آگ ہیں ان سے ہم واقف نہیں امن ہے اور نیند ہے اور خواب ہیں اپنی ہی لذت میں گم جسم ہیں دوستوں سے دور ہنگاموں میں میں کھویا ہوا پر سکون آہ کتنی خوبصورت ہے زمین دھوپ میں چمکے ہوئے اس شہر میں زندگی ...

    مزید پڑھیے

    ایک ویران گاؤں میں

    انہی سوکھے ہوئے میدانوں میں اب جہاں دھوپ کی لہروں کے سوا کچھ بھی نہیں سبز لہراتے ہوئے کھیت ہوا کرتے تھے لوگ آباد تھے پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں محفلیں جمتی تھیں افسانے سنے جاتے تھے آج ویران مکانوں میں ہوا چیختی ہے دھول میں اڑتے کتابوں کے ورق کس کی یادوں کے ورق کس کے خیالوں کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2