Zaheer Siddiqui

ظہیر صدیقی

ظہیر صدیقی کی نظم

    عصا بدست اب نہیں ہے کوئی

    اسرائیل مصر جنگ میں کرنل ناصر کے نعرے ہم بیٹے فرعون کے سے متأثر ہو کر یہی وہ کہسار ہیں جہاں مشت خاک نور آشنا ہوئی تھی یہی وہ ذرات ریگ ہیں جو کسی کے بیتاب والہانہ قدم کی ٹھوکر سے کہکشاں کہکشاں ہوئے تھے یہی وہ پتھریلی وادیاں ہیں کہ جن کی آغوش خشک میں دو دھڑکتے معصوم دل ملے تھے اور ...

    مزید پڑھیے

    منتظر سایۂ منتظر آنکھیں

    غیرت ہے کہ حیا نام اس کا نہ لیا جس کو پکارا اس نے اس گئی رات کے سناٹے میں کون آیا ہے بند دروازے کے مجس میں تو سیتا ہی ہے اور باہر کوئی راون تو نہیں کون ہے کون کی سہمی سی صدا وہ بھی کچھ کہہ نہ سکا میں کے سوا دستکیں رام کے مخصوص زباں رکھتی ہیں گوش سیتا کے لیے مژدۂ جاں رکھتی ہیں بلب روشن ...

    مزید پڑھیے

    قبیح لمحوں کا دیوتا

    ابھی فقط تین ہی بجے ہیں ابھی تو اس کی رگوں کی کچھ اور روشنائی تنی ہوئی میز پر پڑے فائلوں کے کاغذ میں جذب ہوگی ضرورتیں اس کے ریگ زار حیات کے ننھے ننھے پودوں کی آبیاری کسی کے نازک اداس ہونٹوں پہ مسکراہٹ کی لالہ کاری گداز بانہوں کے نرم حلقے میں گرم سانسوں کی شب گزاری ضرورتوں کا وہ اک ...

    مزید پڑھیے

    ہیں خواب میں ہنوز

    وہ اک شے کہ جس کے لیے پاک طینت بزرگوں نے اپنے بدن ذہن کے سارے جوہر گنوائے لہو کے گہر خار زاروں کی پہنائیوں میں لٹائے وہ اک شے جسے ان جیالے بزرگوں نے جیب‌ و گریباں دل و جاں سے بھی بڑھ کے سمجھا جو حاصل ہوئی تو ابھی بام و در سے سیہ رات لپٹی ہوئی تھی سفر کی تھکن یا گراں باری عمر نے ان کے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی اپنی روشنی

    ویسے اس تاریک جنگل کے سفر کے قبل بھی ہاتھ میں اس کے یہی اک ٹمٹماتا کانپتا ننھا دیا تھا کچھ تو شہرت کی ہوس نے اور کچھ احمق بہی خواہوں نے اس کی سادہ لوحی کو سزا دی اس کے طفلانہ ارادہ کو ہوا دی لا کے سرحد پر خدا حافظ کہا اس کے خضاب آلودہ سر کو یہ سعادت دی دھواں کھائی ہوئی بد رنگ دستار ...

    مزید پڑھیے

    اسیر ذات روشنی

    نہ لذتوں کا بحر تھا نہ خواہشوں کی وادیاں نہ دائرے عذاب کے نہ زاویے ثواب کے بس ایک روشنی اسیر ذات تھی محیط کائنات تھی ازل سے بے لباس تھی تو یوں ہوا کہ دفعتاً مرے بدن کے پیرہن میں چھپ گئی تو لذتوں کا بحر موج زن ہوا تو خواہشوں کی وادیاں سلگ گئیں تو دائرے عذاب کے پھسل گئے تو زاویے ثواب ...

    مزید پڑھیے

    ایوان تثلیث میں شمع وحدت جلے

    اور جب ان کے اجداد کی سرزمیں جس کی آغوش میں وہ پلے تنگ ہونے لگی جب اصولوں کی پاکیزگی اور گندہ روایات میں جنگ ہونے لگی تو انہیں آسماں سے ہدایت ملی نیک بند تمہارے لیے یہ زمیں ایک ہے اس سفر میں تمہیں رزق کی فکر ہے کیا اناجوں کی گٹھری اٹھائے چرندوں پرندوں کو دیکھا کبھی زاد رہ نیک ...

    مزید پڑھیے

    مکین ہی عجیب ہیں

    یہ گھر بہت عظیم تھا یہ گھر بہت حسین تھا کہ اس کے ارد گرد دور دور تک کوئی مکان اس سے بڑھ کے تھا نہیں مگر یہاں کا چکھ عجب رواج تھا تھے بن بلائے اجنبی کہ جن کا گھر پہ راج تھا سجے سجائے کمرے ان کے شب کدے وہ سبز لان پھول کی کیاریاں وسیع صحن و سائباں تھے ان کے واسطے مگر خود اپنے گھر میں ...

    مزید پڑھیے

    پائے جنوں شرط نہیں

    راہ تاریک تھی دشوار تھا ہر ایک قدم منزل زیست کے ہر گام پہ ٹھوکر کھائی مشعل‌ عزم لیے پھر بھی میں بڑھتا ہی رہا درد و آلام کی آندھی جو کبھی تیز ہوئی دامن شوق میں مشعل کو چھپایا میں نے بہر بندگی و شعلگی مشعل عزم میری شریانوں کا ہر قطرۂ خوں واقف ہوا دامن شوق بھی جل بجھ کے کہیں راکھ ...

    مزید پڑھیے

    کینوس کوئی سادہ نہیں

    ٹوٹتی ریزہ ریزہ سمٹتی ہوئی ساعتوں کی کوئی سطح سادہ نہیں ایک وقفہ کا دامن بھی دھبوں سے خالی نہیں یہ نظر کا نہیں اصل میں اک تضاد نظر کا کرشمہ ہے ورنہ یہ اوراق مہتاب بھی جتنے لگتے ہیں اجلے نہیں منہ کھلی اور لڑکی ہوئی رات سے لمحہ لمحہ بھبکتی ہوئی روشنائی بہت تیز ہے رات کے کوئلے جب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2