Zaheer Siddiqui

ظہیر صدیقی

ظہیر صدیقی کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    ہر گل تازہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرے

    ہر گل تازہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرے اس کی زلفوں تک پہنچنے کے لیے منت کرے دل بچائے یا سراہے آتش رخسار کو جس کا گھر جلتا ہو وہ شعلوں کی کیا مدحت کرے آم کے پھولوں کو خود ہی جھاڑ دے اور اس کے بعد بے ثمر شاخوں سے آوارہ ہوا حجت کرے شہر والوں کو بھی حاجت ہے اناجوں کی مگر خوش لباسی موسم ...

    مزید پڑھیے

    وجود اس کا کبھی بھی نہ لقمۂ تر تھا

    وجود اس کا کبھی بھی نہ لقمۂ تر تھا وہ ہر نوالے میں دانتوں کے بیچ کنکر تھا الگ الگ تھے دل و ذہن بدنصیبوں کے عجیب بات ہے ہر دھڑ پہ غیر کا سر تھا نہ جانے ہم سے گلہ کیوں ہے تشنہ کاموں کو ہمارے ہاتھ میں مے تھی نہ دور ساغر تھا لہولہان ہی کر دیتا پائے لغزش کو ثبوت دیتا کہ وہ راستے کا ...

    مزید پڑھیے

    ہاں وہ میں ہی تھا کہ جس نے خواب ڈھویا صبح تک

    ہاں وہ میں ہی تھا کہ جس نے خواب ڈھویا صبح تک کون تھا وہ جو مرے بستر پہ سویا صبح تک رات بھر کمرے میں میں دبکا رہا اور آسماں میری فرقت میں مرے آنگن میں رویا صبح تک بلب روشن تھا اندھیرے کو اجازت تھی نہیں پھر بھی وہ بستر کے نیچے خوب سویا صبح تک لوگ اکڑی پیٹھ لے کر دفتروں سے چل ...

    مزید پڑھیے

    بے برگ و بار راہ میں سوکھے درخت تھے

    بے برگ و بار راہ میں سوکھے درخت تھے منزل تہہ قدم ہوئی ہم تیز بخت تھے حملے چہار سمت سے ہم پر ہوئے مگر اندر سے وار جتنے ہوئے زیادہ سخت تھے تھے پیڑ پر تو مجھ کو بہت خوش نما لگے توڑے تو جتنے پھل تھے کسیلے کرخت تھے سوئے تو یاد قوس قزح میں سمٹ گئی جاگے تو جتنے رنگ تھے وہ لخت لخت تھے سر ...

    مزید پڑھیے

    خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رہی

    خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رہی دن چڑھے تک خامشی منبر پہ چلاتی رہی ایک لمحہ کی خطا پھیلی تو ساری زندگی چبھتے ذرے کانچ کے پلکوں سے چنواتی رہی کب یقیں تھا کوئی آئے گا مگر ظالم ہوا بند دروازے کو دستک دے کے کھلواتی رہی لمس حرف و صوت کی لذت سے واقف تھی مگر پہلوئے آواز میں تخئیل ...

    مزید پڑھیے

تمام

16 نظم (Nazm)

    عصا بدست اب نہیں ہے کوئی

    اسرائیل مصر جنگ میں کرنل ناصر کے نعرے ہم بیٹے فرعون کے سے متأثر ہو کر یہی وہ کہسار ہیں جہاں مشت خاک نور آشنا ہوئی تھی یہی وہ ذرات ریگ ہیں جو کسی کے بیتاب والہانہ قدم کی ٹھوکر سے کہکشاں کہکشاں ہوئے تھے یہی وہ پتھریلی وادیاں ہیں کہ جن کی آغوش خشک میں دو دھڑکتے معصوم دل ملے تھے اور ...

    مزید پڑھیے

    منتظر سایۂ منتظر آنکھیں

    غیرت ہے کہ حیا نام اس کا نہ لیا جس کو پکارا اس نے اس گئی رات کے سناٹے میں کون آیا ہے بند دروازے کے مجس میں تو سیتا ہی ہے اور باہر کوئی راون تو نہیں کون ہے کون کی سہمی سی صدا وہ بھی کچھ کہہ نہ سکا میں کے سوا دستکیں رام کے مخصوص زباں رکھتی ہیں گوش سیتا کے لیے مژدۂ جاں رکھتی ہیں بلب روشن ...

    مزید پڑھیے

    قبیح لمحوں کا دیوتا

    ابھی فقط تین ہی بجے ہیں ابھی تو اس کی رگوں کی کچھ اور روشنائی تنی ہوئی میز پر پڑے فائلوں کے کاغذ میں جذب ہوگی ضرورتیں اس کے ریگ زار حیات کے ننھے ننھے پودوں کی آبیاری کسی کے نازک اداس ہونٹوں پہ مسکراہٹ کی لالہ کاری گداز بانہوں کے نرم حلقے میں گرم سانسوں کی شب گزاری ضرورتوں کا وہ اک ...

    مزید پڑھیے

    ہیں خواب میں ہنوز

    وہ اک شے کہ جس کے لیے پاک طینت بزرگوں نے اپنے بدن ذہن کے سارے جوہر گنوائے لہو کے گہر خار زاروں کی پہنائیوں میں لٹائے وہ اک شے جسے ان جیالے بزرگوں نے جیب‌ و گریباں دل و جاں سے بھی بڑھ کے سمجھا جو حاصل ہوئی تو ابھی بام و در سے سیہ رات لپٹی ہوئی تھی سفر کی تھکن یا گراں باری عمر نے ان کے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی اپنی روشنی

    ویسے اس تاریک جنگل کے سفر کے قبل بھی ہاتھ میں اس کے یہی اک ٹمٹماتا کانپتا ننھا دیا تھا کچھ تو شہرت کی ہوس نے اور کچھ احمق بہی خواہوں نے اس کی سادہ لوحی کو سزا دی اس کے طفلانہ ارادہ کو ہوا دی لا کے سرحد پر خدا حافظ کہا اس کے خضاب آلودہ سر کو یہ سعادت دی دھواں کھائی ہوئی بد رنگ دستار ...

    مزید پڑھیے

تمام