Zaheer Siddiqui

ظہیر صدیقی

ظہیر صدیقی کی غزل

    ہر گل تازہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرے

    ہر گل تازہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرے اس کی زلفوں تک پہنچنے کے لیے منت کرے دل بچائے یا سراہے آتش رخسار کو جس کا گھر جلتا ہو وہ شعلوں کی کیا مدحت کرے آم کے پھولوں کو خود ہی جھاڑ دے اور اس کے بعد بے ثمر شاخوں سے آوارہ ہوا حجت کرے شہر والوں کو بھی حاجت ہے اناجوں کی مگر خوش لباسی موسم ...

    مزید پڑھیے

    وجود اس کا کبھی بھی نہ لقمۂ تر تھا

    وجود اس کا کبھی بھی نہ لقمۂ تر تھا وہ ہر نوالے میں دانتوں کے بیچ کنکر تھا الگ الگ تھے دل و ذہن بدنصیبوں کے عجیب بات ہے ہر دھڑ پہ غیر کا سر تھا نہ جانے ہم سے گلہ کیوں ہے تشنہ کاموں کو ہمارے ہاتھ میں مے تھی نہ دور ساغر تھا لہولہان ہی کر دیتا پائے لغزش کو ثبوت دیتا کہ وہ راستے کا ...

    مزید پڑھیے

    ہاں وہ میں ہی تھا کہ جس نے خواب ڈھویا صبح تک

    ہاں وہ میں ہی تھا کہ جس نے خواب ڈھویا صبح تک کون تھا وہ جو مرے بستر پہ سویا صبح تک رات بھر کمرے میں میں دبکا رہا اور آسماں میری فرقت میں مرے آنگن میں رویا صبح تک بلب روشن تھا اندھیرے کو اجازت تھی نہیں پھر بھی وہ بستر کے نیچے خوب سویا صبح تک لوگ اکڑی پیٹھ لے کر دفتروں سے چل ...

    مزید پڑھیے

    بے برگ و بار راہ میں سوکھے درخت تھے

    بے برگ و بار راہ میں سوکھے درخت تھے منزل تہہ قدم ہوئی ہم تیز بخت تھے حملے چہار سمت سے ہم پر ہوئے مگر اندر سے وار جتنے ہوئے زیادہ سخت تھے تھے پیڑ پر تو مجھ کو بہت خوش نما لگے توڑے تو جتنے پھل تھے کسیلے کرخت تھے سوئے تو یاد قوس قزح میں سمٹ گئی جاگے تو جتنے رنگ تھے وہ لخت لخت تھے سر ...

    مزید پڑھیے

    خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رہی

    خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رہی دن چڑھے تک خامشی منبر پہ چلاتی رہی ایک لمحہ کی خطا پھیلی تو ساری زندگی چبھتے ذرے کانچ کے پلکوں سے چنواتی رہی کب یقیں تھا کوئی آئے گا مگر ظالم ہوا بند دروازے کو دستک دے کے کھلواتی رہی لمس حرف و صوت کی لذت سے واقف تھی مگر پہلوئے آواز میں تخئیل ...

    مزید پڑھیے

    جو حوصلہ ہو تو ہلکی ہے دوپہر کی دھوپ

    جو حوصلہ ہو تو ہلکی ہے دوپہر کی دھوپ تنک مزاجوں کو لگتی ہے یوں قمر کی دھوپ مرے جنون قدم نے بڑا ہی کام کیا جو گرد راہ بڑھی کم ہوئی سفر کی دھوپ صفائے شیشۂ عارض پہ کھل گئی ہے شفق جو ان کے رخ پہ پڑی ہے مری نظر کی دھوپ شب وصال کی یہ شام بھی ہے رشک سحر مہک مہک کے سرکتی ہے بام و در کی ...

    مزید پڑھیے

    سوکھے ہوئے پتوں میں آواز کی خوشبو ہے

    سوکھے ہوئے پتوں میں آواز کی خوشبو ہے الفاظ کے صحرا میں تخیل کا آہو ہے جاتے ہوئے سورج کی اک ترچھی نظر ہی تھی تب شرم کا سندور تھا اب ہجر کا گیسو ہے مسحور فضا کیوں ہے مجبور صبا کیوں ہے رنگوں کے حصاروں میں نغمات کا جادو ہے موجوں سے الجھنا کیا طوفان سے گزرنا کیا ہر ڈوبنے والے کو ...

    مزید پڑھیے

    چند مہمل سی لکیریں ہی سہی افشا رہوں

    چند مہمل سی لکیریں ہی سہی افشا رہوں نوک خامہ پر برنگ روشنائی کیا رہوں کوئی شاید آ ہی جائے راستہ تکتا رہوں ایک سنگ میل بن جاؤں بہ چشم وا رہوں کھائی سے سب کو بچا لوں میں نہ کچلا جاؤں تو بن کے خطرہ کا نشاں رستے میں استادہ رہوں دشت تنہائی میں یادوں کے درندوں سے ڈروں بچ بچا کے بھیڑ ...

    مزید پڑھیے

    زخم تازہ برگ گل میں منتقل ہوتے گئے

    زخم تازہ برگ گل میں منتقل ہوتے گئے پنجۂ سفاک میں خنجر خجل ہوتے گئے دید کے قابل تھا ان صحرا نوردوں کا جنوں منزلیں ملتی گئیں ہم مضمحل ہوتے گئے نور کا رشتہ سواد جسم سے کٹتا گیا ہم بھی آخر باد و آتش آب و گل ہوتے گئے خون میں اونچے چناروں کے نہ حدت آ سکی یوں بظاہر سبز پتے مشتعل ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    درد تو زخم کی پٹی کے ہٹانے سے اٹھا

    درد تو زخم کی پٹی کے ہٹانے سے اٹھا اور کچھ اور بھی مرہم کے لگانے سے اٹھا اس کے الفاظ تسلی نے رلایا مجھ کو کچھ زیادہ ہی دھواں آگ بجھانے سے اٹھا عہد ماضی بھی تو بے داغ نہیں کیوں کہیے پاسداری کا چلن آج زمانے سے اٹھا وجہ ممکن ہے کوئی اور ہو میں یہ سمجھا وہ تری بزم میں شاید مرے آنے سے ...

    مزید پڑھیے