ظفر زیدی کی نظم

    چھٹی کا ایک دن

    ایک دن چھٹی کا یوں گزرا کہ مجھ کو دکھ گئے ساتوں طبق چاند کی بڑھیا خلاؤں کی حدیں سورج کا گھر اور کیا دیکھا کہاں دیکھا بیاں کرتا چلوں شہر سے باہر سمندر کے قریب ریت پر پھیلا ہوا رنگیں جواں جسموں کا گوشت جا بجا پھیلے ہوئے بستان رانیں پنڈلیاں شرم گاہیں اپنی کتوں سے چھپائے لڑکیاں اور ...

    مزید پڑھیے

    دسترس

    ہماری دسترس میں کیا ہے کیا نہیں زمیں نہیں خلا نہیں کہ آسماں نہیں ہمیں تو صرف سوچنا یہ چاہیے کہ مٹھیاں کھلی رہیں ہتھیلیوں سے انگلیاں جڑی رہیں زمیں سے پاؤں پاؤں سے قدم قدم سے راستوں کا سلسلہ بنا رہے ہمیں تو صرف دیکھنا یہ چاہیے کہ جس کو لوگ رد کریں اور اپنی دید کی غلیظ چادروں سے ...

    مزید پڑھیے

    رد عمل

    میں آندھیوں کی سیاہ یلغار سے بچا بھی تو اپنی منزل نہ پا سکوں گا کہ راستے میں نے اپنے بدل دئے ہیں تمام بے لوث حوصلے بھی کچل دئے ہیں سفر مرا اب شروع ہوا ہے شروع رہے گا ہجوم ملنے تو دو کہیں پر قدم نہ ہوں گے مرے زمیں پر بڑھو بڑھو کی صدائے ماضی بدن کے ساتوں طبق میں ہوگی تو کیا کروں گا کہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک شب کا مسافر

    مجھے کیا خبر تھی کہ تم میری انگلی پکڑ کر چلو گی شب کی تاریک سرحد سے باہر نکلتے ہی دن کے اجالے میں پہلا قدم رکھتے ہی مسکرا کر کہو گی دیکھیے شکریہ اب یہاں سے میں سورج کی کرنوں کے ہم راہ خود ہی چلی جاؤں گی اور میں مڑ کے دیکھوں گا ان راستوں کو جو یوں شب زدہ ہو چکے ہوں کہ اپنا پتہ کھو چکے ...

    مزید پڑھیے

    پچھتاوا

    میں اپنی آنکھوں کو کھو چکا جب تو راستوں کا سوال آیا سفر کا مجھ کو خیال آیا مگر کروں کیا کہ اب تو آنکھیں ہی کھو چکا ہوں ٹٹول کر میں کہاں تلک راستہ چلوں گا قدم قدم پر نگاہ افسوس ہی ملوں گا

    مزید پڑھیے

    مکالمہ

    اٹھو جاؤ فوراً نہاؤ کہ تم خواب میں لڑکیوں سے ملے ہو تو پھر کیا ہوا لڑکیوں سے تو میں روز ہی گھر میں بازار میں اور آفس میں ملتا ہوں باتیں بھی کرتا ہوں بوسے بھی لیتا ہوں مگر مگر کچھ نہیں جاؤ جا کر نہاؤ اچھا اگر یہ ہی ضد ہے تمہاری تو میں جا رہا ہوں

    مزید پڑھیے

    نظم

    میں کل رات اس شہر کی اس سڑک پر گیا جہاں لوگ اپنی صداؤں سے ڈر کر سماعت کو نیلام کر رہے تھے ہر اک شخص بس بولنا چاہتا تھا ہر اک شخص مٹھی میں جملے چھپائے کھڑا تھا وہاں لڑکیاں لال پیلی ہری تتلیوں کی طرح تیرتی پھر رہی تھیں مگر اپنے جسموں کے سارے خطرناک حصوں سے خود ڈر رہی تھیں وہاں کانچ ...

    مزید پڑھیے

    خواہش

    میں جب بھی اکیلا ہوتا ہوں دل میرا مجھ سے کہتا ہے اے کاش تو چپکے سے آ کر اپنے نازک ہاتھوں سے میری ان آنکھوں کو بند کرے میں جان کے بھی انجان بنوں کچھ نام یوں ہی بے معنی سے بیگانے سے گنوا ڈالوں تو آنکھ مری کھولے نہ کبھی جب تک میں تیرا نام نہ لوں میں نام نہ لوں

    مزید پڑھیے

    عجیب لڑکی

    عجیب لڑکی ہے وہ کہ اس کو خدا بنایا تو وہ خفا ہے چہار جانب عبادتوں کا حصار کھینچا مسافتوں کے شجر اگائے ہراس کی وسعتوں کو میں نے طلسم صوت و صدا سے باندھا ہواؤں کو سمت آگہی دی شبوں کے زخمی کبوتروں کو لہو پلایا فلک پہ نیلاہٹیں بکھیریں خلا میں قوس قزح کے رنگین پر اڑائے نگاہ و دل کی ...

    مزید پڑھیے

    ایک ساعت

    مہرباں ساعت نے اپنی گود میں پھولوں کا گلدستہ سجایا ہواؤں کو بلایا اور کہا دیکھو زمیں سے آسماں تک حد تخیل و بیاں تک مکاں سے لا مکاں تک تم جہاں تک جاؤ میری خوشبوئیں ہم راہ لے جاؤ کہ امشب عرش سے ایسا ستارہ میں نے پایا کہ گھر میرا منور ہو گیا آج ہی کے دن ہمارے در پہ سورج نے صدا دی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2