ظفر زیدی کے تمام مواد

22 غزل (Ghazal)

    ہر ایک دن تھا اسی کا ہر ایک رات اس کی

    ہر ایک دن تھا اسی کا ہر ایک رات اس کی مرے بدن میں رہی مدتوں حیات اس کی مری کتاب میں اس کا بیان سچ ہی تو ہے کہ میرے ذہن پہ چھائی ہوئی ہے ذات اس کی عجیب خواب دکھایا ہے رات آنکھوں نے کہ میرے نام سے منسوب ہے برات اس کی سسک سسک کے کوئی رو رہا تھا دل میں مرے کسی نے جیسے چرا لی ہو کائنات ...

    مزید پڑھیے

    فیصلہ کوئی بلندی پہ پہنچ کر ہوگا

    فیصلہ کوئی بلندی پہ پہنچ کر ہوگا جب مرے سامنے ہر شہر کا منظر ہوگا اور کچھ دیر اسے روند کے خوش ہو جاؤں آنکھ کھلتے ہی یہ سورج مرے سر پر ہوگا کشتیاں آج سے پہلے ہوئیں کتنی غرقاب اس کا اندازہ سمندر میں اتر کر ہوگا اک نجومی نے بتائی ہے بڑے کام کی بات کل کا دن آج سے ہر حال میں بہتر ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیاں کھولیں تو مجھ کو آج اندازہ ہوا

    کھڑکیاں کھولیں تو مجھ کو آج اندازہ ہوا میرا ہی سایہ تھا وہ دیوار سے لپٹا ہوا آج کی شب بھی پلٹ آئے بنا دستک دئے سو رہا تھا گھر میں کوئی رات کا جاگا ہوا اس گلی کے موڑ پہ بیٹھا ہوں کتنی دیر سے جس طرح کوئی مسافر ہوں تھکا ہارا ہوا جس طرف بھی اب اڑا لے جائیں مجھ کو آندھیاں ایک پتہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے شہر میں دیکھوں تو کیا نہیں ملتا

    تمہارے شہر میں دیکھوں تو کیا نہیں ملتا بس اپنے گھر کے لیے راستہ نہیں ملتا عروج پر ہے نئے موسموں کا جاہ و جلال شجر پہ کوئی بھی پتہ ہرا نہیں ملتا ابھی ابھی کوئی آندھی ادھر سے گزری ہے رہ حیات مجھے نقش پا نہیں ملتا بچھڑ کے تجھ سے طبیعت اچاٹ رہتی ہے خود اپنے گھر میں بھی گھر کا مزا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں تھا پیار لبوں پر نام وفا کا تھا

    آنکھوں میں تھا پیار لبوں پر نام وفا کا تھا کل تک تو وہ شخص بھی بالکل میرے جیسا تھا اپنی اپنی مٹھی میں سب جگنو رکھے تھے لیکن سب کی راہوں میں کتنا اندھیارا تھا آندھی آنے سے پہلے ہی بچے جاگ گئے رات ہواؤں کے چلنے میں شور بلا کا تھا ہلکی سی بوچھار نے سارے نقش مٹا ڈالے رنگ ہماری ...

    مزید پڑھیے

تمام

11 نظم (Nazm)

    چھٹی کا ایک دن

    ایک دن چھٹی کا یوں گزرا کہ مجھ کو دکھ گئے ساتوں طبق چاند کی بڑھیا خلاؤں کی حدیں سورج کا گھر اور کیا دیکھا کہاں دیکھا بیاں کرتا چلوں شہر سے باہر سمندر کے قریب ریت پر پھیلا ہوا رنگیں جواں جسموں کا گوشت جا بجا پھیلے ہوئے بستان رانیں پنڈلیاں شرم گاہیں اپنی کتوں سے چھپائے لڑکیاں اور ...

    مزید پڑھیے

    دسترس

    ہماری دسترس میں کیا ہے کیا نہیں زمیں نہیں خلا نہیں کہ آسماں نہیں ہمیں تو صرف سوچنا یہ چاہیے کہ مٹھیاں کھلی رہیں ہتھیلیوں سے انگلیاں جڑی رہیں زمیں سے پاؤں پاؤں سے قدم قدم سے راستوں کا سلسلہ بنا رہے ہمیں تو صرف دیکھنا یہ چاہیے کہ جس کو لوگ رد کریں اور اپنی دید کی غلیظ چادروں سے ...

    مزید پڑھیے

    رد عمل

    میں آندھیوں کی سیاہ یلغار سے بچا بھی تو اپنی منزل نہ پا سکوں گا کہ راستے میں نے اپنے بدل دئے ہیں تمام بے لوث حوصلے بھی کچل دئے ہیں سفر مرا اب شروع ہوا ہے شروع رہے گا ہجوم ملنے تو دو کہیں پر قدم نہ ہوں گے مرے زمیں پر بڑھو بڑھو کی صدائے ماضی بدن کے ساتوں طبق میں ہوگی تو کیا کروں گا کہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک شب کا مسافر

    مجھے کیا خبر تھی کہ تم میری انگلی پکڑ کر چلو گی شب کی تاریک سرحد سے باہر نکلتے ہی دن کے اجالے میں پہلا قدم رکھتے ہی مسکرا کر کہو گی دیکھیے شکریہ اب یہاں سے میں سورج کی کرنوں کے ہم راہ خود ہی چلی جاؤں گی اور میں مڑ کے دیکھوں گا ان راستوں کو جو یوں شب زدہ ہو چکے ہوں کہ اپنا پتہ کھو چکے ...

    مزید پڑھیے

    پچھتاوا

    میں اپنی آنکھوں کو کھو چکا جب تو راستوں کا سوال آیا سفر کا مجھ کو خیال آیا مگر کروں کیا کہ اب تو آنکھیں ہی کھو چکا ہوں ٹٹول کر میں کہاں تلک راستہ چلوں گا قدم قدم پر نگاہ افسوس ہی ملوں گا

    مزید پڑھیے

تمام