Zafar Siddiqui

ظفر صدیقی

ظفر صدیقی کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    تو مطمئن ہے تو آخر یہ حال کیسا ہے

    تو مطمئن ہے تو آخر یہ حال کیسا ہے زبان چپ ہے نظر میں سوال کیسا ہے تمام شہر میں خوشیاں لٹانے نکلے تھے تمہارے چہرے پہ رنگ ملال کیسا ہے چلی گئی ہے مسرت تو مسکراہٹ کیوں اتر چکی ہے ندی تو ابال کیسا ہے یہاں سبھی کو سبھی سے عقیدتیں ہیں بہت قدم قدم پہ یہ سازش کا جال کیسا ہے کسی نے خون ...

    مزید پڑھیے

    پہن کر دست و پا میں آہنی زیور نکلتے ہیں

    پہن کر دست و پا میں آہنی زیور نکلتے ہیں ترے وحشی بہ سوئے دار بن ٹھن کر نکلتے ہیں بغاوت کی ہوا جب بھی دکھاتی ہے اثر اپنا تو پھر سنجیدہ لوگوں میں بھی کچھ خود سر نکلتے ہیں کوئی مجھ کو یہ بتلائے کہ اجلے پیرہن والے اندھیری رات کے عالم میں کیوں باہر نکلتے ہیں جنہیں دعویٰ ہے گلشن میں ...

    مزید پڑھیے

    تشنگی میں کوئی قطرہ نہ میسر آیا

    تشنگی میں کوئی قطرہ نہ میسر آیا مر گئی پیاس تو حصے میں سمندر آیا جتنے غواص تھے وہ تہہ سے نہ خالی لوٹے جو شناور تھے انہیں ہاتھ نہ گوہر آیا میری قسمت میں وہی شب وہی ظلمت کا گزر صبح آئی نہ مرا مہر منور آیا سر جھکایا تو مجھے روند گئی ہے دنیا سر اٹھایا تو ہر اک سمت سے پتھر آیا وہ تو ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر کے خواب کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ

    عمر بھر کے خواب کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ سایۂ دیوار کو منزل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ دشت و دریا سے گزر ہو یا خلاؤں کا سفر اب بھی آساں ہے مگر مشکل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں مجھ کو سب معلوم ہے اپنی جانب سے مجھے غافل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ زندگی کے ایک اک پل کی خبر رکھتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا

    تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا خطا یہی تھی کہ لہجہ پر التماس نہ تھا پھر اس نے کس لیے رکھے ہوا پہ اپنے قدم وہ گرد گرد تھا سوکھے لبوں کی پیاس نہ تھا میں اپنے آپ لٹا آسماں کی خواہش سے زمیں کا چہرہ مری نیند سے اداس نہ تھا یہ کس نے آنکھ کو ننگا کیا ہے دریا میں مہکتی ریت پہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

تمام