Zafar Siddiqui

ظفر صدیقی

ظفر صدیقی کی غزل

    تو مطمئن ہے تو آخر یہ حال کیسا ہے

    تو مطمئن ہے تو آخر یہ حال کیسا ہے زبان چپ ہے نظر میں سوال کیسا ہے تمام شہر میں خوشیاں لٹانے نکلے تھے تمہارے چہرے پہ رنگ ملال کیسا ہے چلی گئی ہے مسرت تو مسکراہٹ کیوں اتر چکی ہے ندی تو ابال کیسا ہے یہاں سبھی کو سبھی سے عقیدتیں ہیں بہت قدم قدم پہ یہ سازش کا جال کیسا ہے کسی نے خون ...

    مزید پڑھیے

    پہن کر دست و پا میں آہنی زیور نکلتے ہیں

    پہن کر دست و پا میں آہنی زیور نکلتے ہیں ترے وحشی بہ سوئے دار بن ٹھن کر نکلتے ہیں بغاوت کی ہوا جب بھی دکھاتی ہے اثر اپنا تو پھر سنجیدہ لوگوں میں بھی کچھ خود سر نکلتے ہیں کوئی مجھ کو یہ بتلائے کہ اجلے پیرہن والے اندھیری رات کے عالم میں کیوں باہر نکلتے ہیں جنہیں دعویٰ ہے گلشن میں ...

    مزید پڑھیے

    تشنگی میں کوئی قطرہ نہ میسر آیا

    تشنگی میں کوئی قطرہ نہ میسر آیا مر گئی پیاس تو حصے میں سمندر آیا جتنے غواص تھے وہ تہہ سے نہ خالی لوٹے جو شناور تھے انہیں ہاتھ نہ گوہر آیا میری قسمت میں وہی شب وہی ظلمت کا گزر صبح آئی نہ مرا مہر منور آیا سر جھکایا تو مجھے روند گئی ہے دنیا سر اٹھایا تو ہر اک سمت سے پتھر آیا وہ تو ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر کے خواب کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ

    عمر بھر کے خواب کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ سایۂ دیوار کو منزل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ دشت و دریا سے گزر ہو یا خلاؤں کا سفر اب بھی آساں ہے مگر مشکل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں مجھ کو سب معلوم ہے اپنی جانب سے مجھے غافل سمجھ بیٹھے ہیں لوگ زندگی کے ایک اک پل کی خبر رکھتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا

    تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا خطا یہی تھی کہ لہجہ پر التماس نہ تھا پھر اس نے کس لیے رکھے ہوا پہ اپنے قدم وہ گرد گرد تھا سوکھے لبوں کی پیاس نہ تھا میں اپنے آپ لٹا آسماں کی خواہش سے زمیں کا چہرہ مری نیند سے اداس نہ تھا یہ کس نے آنکھ کو ننگا کیا ہے دریا میں مہکتی ریت پہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    شاید ایسا شخص ہمارا پورا خواب کرے

    شاید ایسا شخص ہمارا پورا خواب کرے پتھر کو جو موم بنائے آہن آب کرے اس بادل کی آس لگائے بیٹھے ہیں سب لوگ دل کی کھیتی چھوڑ کے جو جنگل سیراب کرے دریا دریا طوفاں اپنا کر جاتا ہے کام ساحل زد میں آ جائے تو کیا گرداب کرے میری بستی میں رہتے ہیں کچھ فرعون صفت اس کی مرضی زندہ رکھے یا غرقاب ...

    مزید پڑھیے

    زہر ساعت ہی پئیں جسم تہ خاک تو ہو

    زہر ساعت ہی پئیں جسم تہ خاک تو ہو سرد آنکھوں میں کوئی خواہش ناپاک تو ہو ہم بھی روشن ہوں اتاریں یہ گناہوں کا لباس تو برستے ہوئے پانی کی طرح پاک تو ہو منجمد خون رگوں کا ہے اسے پی جائیں رات کا زخم سیہ رنگ جگر چاک تو ہو جسم خاکی سے بھی تنویر کا رشتہ ہے ضرور سرخ شعلوں سے لپٹ جا خس و ...

    مزید پڑھیے

    اجالوں کا اگر دشمن نہیں ہے

    اجالوں کا اگر دشمن نہیں ہے اندھیروں سے بھی وہ بد ظن نہیں ہے ہمارے پاس کوئی دھن نہیں ہے بہت آرام ہے الجھن نہیں ہے مرے برتن میں ہے محنت کی روٹی کسی کی دیگ کی کھرچن نہیں ہے مری پوشاک پر کیوں ہنس رہا ہے یہ اپنی ہے تری اترن نہیں ہے غریبوں کے لئے اب بھی جہاں میں کوئی منزل کوئی مسکن ...

    مزید پڑھیے

    جس جگہ رہنا سمندر رہنا

    جس جگہ رہنا سمندر رہنا اور پیاسوں کو میسر رہنا پاؤں چادر سے نہ باہر نکلے اپنی اوقات کے اندر رہنا گھر سے محروم نہ کر دے تم کو یہ شب و روز کا باہر رہنا اپنے پیروں پہ کھڑے ہو جاؤ کب تلک بوجھ کسی پر رہنا تم کو دعویٰ ہے دلیری کا اگر ناتواں لوگ سے دب کر رہنا سب کو ہوتی ہے نشیمن کی ...

    مزید پڑھیے