Zafar Sayyad

ظفر سید

ظفر سید کی نظم

    نیند

    ایک کبوتر نیل سمندر کے ساحل پر دم لینے کو اترا پل بھر لیکن خوابوں کی چھتری کو جال سمجھ کر ایسا پلٹا دھوپ چڑھے تک گھر نہیں لوٹا

    مزید پڑھیے

    شکاگو

    بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی تنگ و تیرا گلی میں کھڑا ہوں فلک اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے زمیں پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے اور میں کھڑا سوچتا ہوں کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے اپنے سر کو بچاؤں

    مزید پڑھیے

    پلوٹو

    مرے پیارے بچے بڑا ظلم تم پر ہوا ہے بہ یک جنبش سر تمہیں اپنی مسند سے معزول ہونا پڑا ہے سمجھ میں نہیں آتا ایسی خطا کیا ہوئی تم سے مانا کہ تم اپنے بھائیوں سے ٹھگنے تھے یا پھر تمہارا ٹھکانا مقرر نہیں تھا تم اپنی حدوں سے بھٹک کر کسی اور کے دائرے میں در انداز ہوتے تھے میں جانتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    داستان گو

    میر باقر علی تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں کو سلجھاتا صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدہوں سے نمٹتا بیابان حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے پہرے پہ مامور یک چشم دیووں کی نظریں بچا سبز قلعے کی اونچی کگر پھاند کر مہ جبیں کے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    دیوار

    سمندر خان اک پشتو کا شاعر جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں یک دم اک جھپاکا سا ہوا اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولیٰ بننے اور مٹنے لگا پر شومیٔ قسمت قلم ہی جیب میں تھا اور نہ کاغذ کا کوئی پرزہ سمندر خان رک کر اور اک پتھر پہ ٹک کر میچ کر آنکھوں کو دنیا اور ما فیہا سے بیگانہ ...

    مزید پڑھیے