نیند
ایک کبوتر نیل سمندر کے ساحل پر دم لینے کو اترا پل بھر لیکن خوابوں کی چھتری کو جال سمجھ کر ایسا پلٹا دھوپ چڑھے تک گھر نہیں لوٹا
ایک کبوتر نیل سمندر کے ساحل پر دم لینے کو اترا پل بھر لیکن خوابوں کی چھتری کو جال سمجھ کر ایسا پلٹا دھوپ چڑھے تک گھر نہیں لوٹا
بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی تنگ و تیرا گلی میں کھڑا ہوں فلک اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے زمیں پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے اور میں کھڑا سوچتا ہوں کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے اپنے سر کو بچاؤں
مرے پیارے بچے بڑا ظلم تم پر ہوا ہے بہ یک جنبش سر تمہیں اپنی مسند سے معزول ہونا پڑا ہے سمجھ میں نہیں آتا ایسی خطا کیا ہوئی تم سے مانا کہ تم اپنے بھائیوں سے ٹھگنے تھے یا پھر تمہارا ٹھکانا مقرر نہیں تھا تم اپنی حدوں سے بھٹک کر کسی اور کے دائرے میں در انداز ہوتے تھے میں جانتا ہوں ...
میر باقر علی تم نے پھر بیچ میں داستاں روک دی شاہ گل فام گنجل طلسموں کی گتھیوں کو سلجھاتا صرصار جنگل کے شعلہ نفس اژدہوں سے نمٹتا بیابان حیرت کی بے انت وسعت کو سر کر کے پہرے پہ مامور یک چشم دیووں کی نظریں بچا سبز قلعے کی اونچی کگر پھاند کر مہ جبیں کے معنبر شبستان تک آن پہنچا ہے اور ...
سمندر خان اک پشتو کا شاعر جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں یک دم اک جھپاکا سا ہوا اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولیٰ بننے اور مٹنے لگا پر شومیٔ قسمت قلم ہی جیب میں تھا اور نہ کاغذ کا کوئی پرزہ سمندر خان رک کر اور اک پتھر پہ ٹک کر میچ کر آنکھوں کو دنیا اور ما فیہا سے بیگانہ ...