Zafar Moradabadi

ظفر مرادآبادی

ظفر مرادآبادی کی غزل

    حرف تدبیر نہ تھا حرف دلاسہ روشن

    حرف تدبیر نہ تھا حرف دلاسہ روشن میں جو ڈوبا تو ہوا ساحل دریا روشن عہد میں اپنے مسلط ہے اندھیروں کا عذاب طاق میں وقت کے رکھ دو کوئی لمحہ روشن یوسف آسا سر بازار ہیں رسوا لیکن وادیٔ عشق میں ہے عزم زلیخا روشن جو مری ماں نے دیا رخت سفر کی صورت میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے وہ بوسہ ...

    مزید پڑھیے

    خوش گماں ہر آسرا بے آسرا ثابت ہوا

    خوش گماں ہر آسرا بے آسرا ثابت ہوا زندگی تجھ سے تعلق کھوکھلا ثابت ہوا جب شکایت کی کبیدہ خاطری حاصل ہوئی صبر محرومی مرا حرف دعا ثابت ہوا بے طلب ملتی رہیں یوں تو ہزاروں نعمتیں تھے طلب کی آس میں برہم تو کیا ثابت ہوا روبرو ہوتے ہوئے بھی ہم رہے منزل سے دور اک انا کا مسئلہ زنجیر پا ...

    مزید پڑھیے

    تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے

    تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے لہو لہو وہیں منظر انا کے رکھے تھے کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے ہر ایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے سکون چہرے پہ ہر خوش ادا کے رکھے تھے سمندروں نے بھی تیور چھپا کے رکھے تھے مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے ...

    مزید پڑھیے

    نقاب اس نے رخ حسن زر پہ ڈال دیا

    نقاب اس نے رخ حسن زر پہ ڈال دیا کہ جیسے شب کا اندھیرا سحر پہ ڈال دیا سماعتیں ہوئیں پر شوق حادثوں کے لیے ذرا سا رنگ بیاں جب خبر پہ ڈال دیا تمام اس نے محاسن میں عیب ڈھونڈ لیے جو بار نقد و نظر دیدہ ور پہ ڈال دیا اب اس کو نفع کہیں یا خسارۂ الفت جو داغ اس نے دل معتبر پہ ڈال دیا قریب و ...

    مزید پڑھیے

    بڑھے کچھ اور کسی التجا سے کم نہ ہوئے

    بڑھے کچھ اور کسی التجا سے کم نہ ہوئے مرے حریف تمہاری دعا سے کم نہ ہوئے سیاہ رات میں دل کے مہیب سناٹے خروش نغمۂ شعلہ نوا سے کم نہ ہوئے وطن کو چھوڑ کے ہجرت بھی کس کو راس آئی مسائل ان کے وہاں بھی ذرا سے کم نہ ہوئے فراز خلق سے اپنا لہو بھی برسایا غبار پھر بھی دلوں کی فضا سے کم نہ ...

    مزید پڑھیے

    رات بھر سورج کے بن کر ہم سفر واپس ہوئے

    رات بھر سورج کے بن کر ہم سفر واپس ہوئے شام بچھڑے ہم تو ہنگام سحر واپس ہوئے جلوہ گاہ ذات سے کب خود نگر واپس ہوئے اور اگر واپس ہوئے تو بے بصر واپس ہوئے تھی ہمیں ملحوظ خاطر نیک نامی اس قدر چوم کر نظروں سے ان کے بام و در واپس ہوئے مژدہ پرواز عدم کا ہے کہ راحت کی نوید دم لبوں پر ہے تو ...

    مزید پڑھیے

    ہر انتخاب یہاں ماضی و عقب کا ہے

    ہر انتخاب یہاں ماضی و عقب کا ہے سوال میرا نہیں ہے مرے نسب کا ہے شعور لوح و قلم سے ظہور محفل تک ہر ایک بے ادبی پر لباس ادب کا ہے نہ کوئی داد نہ تحسین صرف خاموشی مرے سخن پہ تیرا تبصرہ غضب کا ہے ہو ایک فرد تو ہو فرد جرم بھی آید ستم گری تو یہاں کاروبار سب کا ہے اگا نہیں کوئی سورج مرے ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ حسن مجسم ادا کو چھوتے ہی

    نگاہ حسن مجسم ادا کو چھوتے ہی گنوائے ہوش بھی اس دل ربا کو چھوتے ہی تمام پھول مہکنے لگے ہیں کھل کھل کر چمن میں شوخی باد صبا کو چھوتے ہی مشام جاں میں عجب ہے سرور کا عالم تصورات میں زلف دوتا کو چھوتے ہی نگاہ شوق کی سب انگلیاں سلگ اٹھیں گلاب جسم کی رنگیں قبا کو چھوتے ہی نظر کو ہیچ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی دعا تو کبھی بد دعا سے لڑتے ہوئے

    کبھی دعا تو کبھی بد دعا سے لڑتے ہوئے تمام عمر گزاری ہوا سے لڑتے ہوئے ہوئے نہ زیر کسی انتہا سے لڑتے ہوئے محاذ ہار گئے ہم قضا سے لڑتے ہوئے بکھر رہا ہوں فضا میں غبار کی صورت خلاف مصلحت اپنی انا سے لڑتے ہوئے فضا بدلتے ہی جاگ اٹھی فطرت مے کش شکست کھا گئی توبہ گھٹا سے لڑتے ہوئے قلم ...

    مزید پڑھیے

    بے قناعت قافلے حرص و ہوا اوڑھے ہوئے

    بے قناعت قافلے حرص و ہوا اوڑھے ہوئے منزلیں بھی کیوں نہ ہوں پھر فاصلہ اوڑھے ہوئے اس قدر خلقت مگر ہے موت کو فرصت بہت ہر بشر ہے آج خود اپنی قضا اوڑھے ہوئے ان کے باطن میں ملا شیطان ہی مسند نشیں جو بظاہر تھے بہت نام خدا اوڑھے ہوئے کیا کرے کوئی کسی سے پرسش احوال بھی آج سب ہیں اپنی ...

    مزید پڑھیے