Zafar Mehdi

ظفر مہدی

ظفر مہدی کی غزل

    میرے قبضے میں لب کشائی ہے

    میرے قبضے میں لب کشائی ہے اب اسیری نہیں رہائی ہے باب گلشن کھلا جو اس سے ملے گل صد برگ آشنائی ہے اک مسلسل سفر میں رہتا ہوں مجھ کو شوق شکستہ پائی ہے ذکر اس کا رہے گا محشر تک جس نے آواز حق سنائی ہے ان کا دامن بھی آج تر دیکھا وہ جنہیں زعم پارسائی ہے منزلوں پر پہنچ کے رک جانا وجہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی ہر بات نئی چاہتا ہے

    دل کی ہر بات نئی چاہتا ہے یعنی تنہا سفری چاہتا ہے جس کو منزل کی تمنا ہی نہیں صرف بے راہروی چاہتا ہے اپنے ہمسائے کی خاطر یہ دل گھر کی دیوار گری چاہتا ہے تنگ اتنا ہوا آسائش سے پھر سے وہ در بدری چاہتا ہے جس کے قبضے میں ہے شہرت ساری بس وہی اپنی نفی چاہتا ہے بے خودی کا ہے یہ عالم کہ ...

    مزید پڑھیے

    فکر انگیز انتشار میں ہیں

    فکر انگیز انتشار میں ہیں جب سے ہم میرؔ کے دیار میں ہیں خود سے بے باک گفتگو کر کے ایک اک لفظ کے حصار میں ہیں عکس کے ساتھ آئنے بولیں ایسے لمحے کے انتظار میں ہیں کون ان کا شمار جانے ہے کتنے دریا جو آبشار میں ہیں اب کوئی کس کا احتساب کرے جب سبھی ایک ہی قطار میں ہیں ان کو لطف خزاں ...

    مزید پڑھیے

    بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا

    بہت ویرانیاں ہوتے ہوئے آباد ہو جانا کرشمہ ہے دل ناشاد کا یوں شاد ہو جانا کوئی حالت نہیں رہتی ہے یکساں دیدہ و دل میں کبھی زنجیر ہو جانا کبھی آزاد ہو جانا بڑی بے انت ہمت چاہئے راہ محبت میں یہ ظاہر یوں کوئی مشکل نہیں فریاد ہو جانا اگر بے سود ہو سب آہ و زاری سامنے اس کے تو پھر خاموش ...

    مزید پڑھیے

    میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں

    میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں ہوا پر آشیانہ چاہتا ہوں جو ہمت ہے تو میرے ساتھ آؤ افق کے پار جانا چاہتا ہوں جو منت کش نہیں ہیں بال و پر کے پرندے وہ اڑانا چاہتا ہوں نگوں کر دے جو طوفانوں کا سر بھی چراغ ایسا جلانا چاہتا ہوں سکوں بخشے جو ہر آشفتہ سر کو غزل ایسی سنانا چاہتا ہوں نظر آ ...

    مزید پڑھیے

    سیمیں بدن ہے وہ نہ گل نسترن ہے وہ

    سیمیں بدن ہے وہ نہ گل نسترن ہے وہ پھر بھی ہمارے واسطے جان سخن ہے وہ جادو خیال آفریں دل دار و دل نشیں گلدستۂ بہار ہے سرو و سمن ہے وہ موسم سے ماورا ہے مرا پیکر خیال جس حال میں ہو اپنے لئے اک چمن ہے وہ روشن رکھا ہے مجھ کو اسی کے خیال نے تاریکیوں کے دشت میں لرزاں کرن ہے وہ چشم غزل سے ...

    مزید پڑھیے

    تابش چشم تر میں رہتے ہیں

    تابش چشم تر میں رہتے ہیں عکس دیوار و در میں رہتے ہیں دفن ہو کر بھی جان سے پیارے دل کے ویراں نگر میں رہتے ہیں منزلوں سے نکل کے آگے ہم یاد کی رہ گزر میں رہتے ہیں کارواں کب ہمارے ساتھ رہا ہم تو تنہا سفر میں رہتے ہیں ان سے بار دگر نہیں نسبت وہ جو بار دگر میں رہتے ہیں کیوں مسیحا کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو فطرت میں خاکساری ہے

    یہ جو فطرت میں خاکساری ہے باعث فخر وضع داری ہے صرف دل پر نہیں کوئی قابو اور جو کچھ ہے اختیاری ہے کچھ نہیں کائنات اس کے سوا اک تماشا ہے اک مداری ہے اپنے دل کی شکستگی کے سبب میرؔ صاحب سے رشتے داری ہے اس کا انجام خوب ہے معلوم وقت بے مہر سے جو پیاری ہے کیا زمانہ مٹا سکے گا اسے یہ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کرنے کے حیلے نہ بہانے آئے

    زندگی کرنے کے حیلے نہ بہانے آئے ہم تو دنیا میں فقط خاک اڑانے آئے یاد ماضی میں فراموش کیا فردا کو عرصۂ عشق میں ایسے بھی زمانے آئے دل وہ بستی ہے اجڑ جائے تو بستی ہی نہیں کتنے سادہ ہیں اسے پھر سے بسانے آئے مسئلہ کوئی نہیں ایسا جو حل ہو نہ سکے بس اسی بات پہ دنیا کو منانے آئے وہ ...

    مزید پڑھیے

    خوش خرامی کو تری ایک چمن زار تو ہو

    خوش خرامی کو تری ایک چمن زار تو ہو گل سے بلبل کو جہاں باہمی تکرار تو ہو رنگ کے ساتھ لہو بھرنے کو تیار تو ہو تیری تصویر بنے کیسے کہ فن کار تو ہو جنگ اور عشق میں ہر بات ہے جائز لیکن جیت اس کی ہے جو آمادۂ پیکار تو ہو وہ محبت ہے مجھے باعث عزت جس میں کبھی انکار ہو لیکن کبھی اقرار تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2