zafar iqbal zafar

ظفر اقبال ظفر

ظفر اقبال ظفر کی غزل

    لبوں پر پیاس سب کے بے کراں ہے

    لبوں پر پیاس سب کے بے کراں ہے ہر اک جانب مگر اندھا کنواں ہے ہے کوئی عکس رنگیں آئنہ پر جب ہی تو آئنہ میں کہکشاں ہے جدائی کا نہ قصہ وصل کا ہے ادھوری کس قدر یہ داستاں ہے کسی سے کوئی بھی ملتا نہیں اب ہر اک انساں یہاں تو بد گماں ہے نہیں کچھ بولتے ہیں جبر سہہ کر لگے ترشی ہوئی سب کی ...

    مزید پڑھیے

    ایک جنبش میں کٹ بھی سکتے ہیں

    ایک جنبش میں کٹ بھی سکتے ہیں دھار پر رکھے سب کے چہرے ہیں ریت کا ہم لباس پہنے ہیں اور ہوا کے سفر پہ نکلے ہیں میں نے اپنی زباں تو رکھ دی ہے دیکھوں پتھر یہ نم بھی ہوتے ہیں ایسے لوگوں سے ملنا جلنا ہے سانپ جو آستیں میں پالے ہیں کوئی پرساں نہیں غموں کا ظفرؔ دیکھنے میں ہزار رشتے ہیں

    مزید پڑھیے

    دریا گزر گئے ہیں سمندر گزر گئے

    دریا گزر گئے ہیں سمندر گزر گئے پیاسا رہا میں کتنے ہی منظر گزر گئے اس جیسا دوسرا نہ سمایا نگاہ میں کتنے حسین آنکھوں سے پیکر گزر گئے کچھ تیر میرے سینے میں پیوست ہو گئے کچھ تیر میرے سینے سے باہر گزر گئے آنسو بیان کرنے سے قاصر رہے جنہیں کیا کیا نہ زخم ذات کے اندر گزر گئے اک چوٹ دل ...

    مزید پڑھیے

    ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا

    ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا عروج حد سے بڑھا تو زوال تک پہنچا خود اپنے آپ میں جھنجھلا کے رہ گیا آخر مرا جواب جب اس کے سوال تک پہنچا غبار کذب سے دھندلا رہا ہمیشہ جو وہ آئنہ مرے کب خد و خال تک پہنچا چلو نہ سر کو اٹھا کر غرور سے اپنا گرا ہے جو بھی بلندی سے ڈھال تک پہنچا جسے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کو کر گیا جنگل کوئی

    زندگی کو کر گیا جنگل کوئی لے گیا خوشیوں کا میری پل کوئی دھنس رہا ہے ہر قدم میرا یہاں راہ میں درپیش ہے دلدل کوئی کوئی کنکر پھینکنے والا نہیں کیسے پھر ہو جھیل میں ہلچل کوئی زندگی تھی ایک صحرا کی طرح زندگی کو کر گیا جل تھل کوئی ہوش بھی اپنا نہیں رہتا مجھے کر رہا کتنا ظفرؔ پاگل ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے

    ایک اک پل ترا نایاب بھی ہو سکتا ہے حوصلہ ہو تو ظفر یاب بھی ہو سکتا ہے بپھری موجوں سے الجھنے کا سلیقہ ہے اگر یہ سمندر کبھی پایاب بھی ہو سکتا ہے عمر تپتے ہوئے صحرا میں بسر کی جس نے تو سرابوں سے وہ سیراب بھی ہو سکتا ہے آپ دریا کی روانی سے نہ الجھیں ہرگز تہہ میں اس کے کوئی گرداب بھی ...

    مزید پڑھیے

    جو بے گھر ہیں انہیں گھر کی دعا دیتی ہیں دیواریں

    جو بے گھر ہیں انہیں گھر کی دعا دیتی ہیں دیواریں پھر اپنے سائے میں ان کو سلا دیتی ہیں دیواریں اسیری ہی مقدر ہے تو کوئی کیا کرے آخر مقید کر کے اپنے میں سزا دیتی ہیں دیواریں ہماری زیست میں ایسے بھی لمحے آتے ہیں اکثر دراروں کے توسط سے ہوا دیتی ہیں دیواریں مری چیخیں فصیلوں سے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    دل و نگاہ کو ویران کر دیا میں نے

    دل و نگاہ کو ویران کر دیا میں نے شکست خواب کا اعلان کر دیا میں نے جو تیر آئے تھے اس کی طرف سے سینے پر سجا کے زخموں کا گلدان کر دیا میں نے غموں کا تاج مرے سر پہ جب سے رکھا ہے خود اپنے آپ کو سلطان کر دیا میں نے نہ کوئی پھول ہی رکھا نہ آرزو نہ چراغ تمام گھر کو بیابان کر دیا میں نے وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ نہیں اس کی مگر جادوگری موجود ہے

    وہ نہیں اس کی مگر جادوگری موجود ہے اک سحر آلود مجھ میں بے خودی موجود ہے صف بہ صف دشمن ہی دشمن ہیں مرے چاروں طرف حوصلہ دیکھو کہ پھر بھی زندگی موجود ہے بجھ گئی ہے بستیوں کی آگ اک مدت ہوئی ذہن میں لیکن ابھی تک شعلگی موجود ہے باد صرصر چل رہی ہے اور اس کے باوجود پھر بھی شمعوں میں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کو شعبدہ سمجھا تھا میں

    زندگی کو شعبدہ سمجھا تھا میں پتھروں کو آئنہ سمجھا تھا میں دھوپ کی یورش تھی ہر اک سمت سے سایۂ دیوار سے لپٹا تھا میں آئینے ہی آئینے تھے ہر طرف پھر بھی اپنے آپ میں تنہا تھا میں حادثوں سے کھیلنے کے باوجود آج بھی ویسا ہوں کل جیسا تھا میں روز زخمی ہوتا تھا میرا بدن پتھروں کے شہر میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2