Zafar Gorakhpuri

ظفر گورکھپوری

ممتاز ترقی پسند شاعر

Prominent poet associated with progressive movement.

ظفر گورکھپوری کی غزل

    بلندی سے اتارے جا چکے ہیں

    بلندی سے اتارے جا چکے ہیں زمیں پر لا کے مارے جا چکے ہیں دکھائے بیچ دریا کون رستہ فلک خالی ہے تارے جا چکے ہیں معانی کیا رہے خودداریوں کے کہ دامن تو پسارے جا چکے ہیں یہ پورا سچ ہے تم مانو نہ مانو کہ اچھے دن تمہارے جا چکے ہیں بھنک تک بھی نہ پہنچی اس کی ہم تک ہمارے دن گزارے جا چکے ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا

    دھوپ ہے کیا اور سایا کیا ہے اب معلوم ہوا یہ سب کھیل تماشا کیا ہے اب معلوم ہوا ہنستے پھول کا چہرہ دیکھوں اور بھر آئے آنکھ اپنے ساتھ یہ قصہ کیا ہے اب معلوم ہوا ہم برسوں کے بعد بھی اس کو اب تک بھول نہ پائے دل سے اس کا رشتہ کیا ہے اب معلوم ہوا صحرا صحرا پیاسے بھٹکے ساری عمر جلے بادل ...

    مزید پڑھیے

    جب اتنی جاں سے محبت بڑھا کے رکھی تھی

    جب اتنی جاں سے محبت بڑھا کے رکھی تھی تو کیوں قریب ہوا شمع لا کے رکھی تھی فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کو مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی ذرا پھوار پڑی اور آبلے اگ آئے عجیب پیاس بدن میں دبا کے رکھی تھی اگرچہ خیمۂ شب کل بھی تھا اداس بہت کم از کم آگ تو ہم نے جلا کے رکھی ...

    مزید پڑھیے

    پل پل جینے کی خواہش میں کرب شام و سحر مانگا

    پل پل جینے کی خواہش میں کرب شام و سحر مانگا سب تھے نشاط نفع کے پیچھے ہم نے رنج ضرر مانگا اب تک جو دستور جنوں تھا ہم نے وہی منظر مانگا صحرا دل کے برابر چاہا دریا آنکھوں بھر مانگا دیکھنا یہ ہے اپنے لہو کی کتنی اونچی ہے پرواز ایسی تیز ہوا میں ہم نے کاغذ کا اک پر مانگا ابر کے احساں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3