Zafar Gorakhpuri

ظفر گورکھپوری

ممتاز ترقی پسند شاعر

Prominent poet associated with progressive movement.

ظفر گورکھپوری کی غزل

    بدن کجلا گیا تو دل کی تابانی سے نکلوں گا

    بدن کجلا گیا تو دل کی تابانی سے نکلوں گا میں سورج بن کے اک دن اپنی پیشانی سے نکلوں گا نظر آ جاؤں گا میں آنسوؤں میں جب بھی روؤگے مجھے مٹی کیا تم نے تو میں پانی سے نکلوں گا تم آنکھوں سے مجھے جاں کے سفر کی مت اجازت دو اگر اترا لہو میں پھر نہ آسانی سے نکلوں گا میں ایسا خوبصورت رنگ ...

    مزید پڑھیے

    روشنی پرچھائیں پیکر آخری

    روشنی پرچھائیں پیکر آخری دیکھ لوں جی بھر کے منظر آخری میں ہوا کے جھکڑوں کے درمیاں اور تن پر ایک چادر آخری ضرب اک ٹھہرے ہوئے پانی پہ اور جاتے جاتے پھینک کنکر آخری دونوں مجرم آئنہ کے سامنے پہلا پتھر ہو کہ پتھر آخری ٹوٹتی اک دن لہو کی خامشی دیکھ لیتے ہم بھی محشر آخری یہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    پکارے جا رہے ہو اجنبی سے چاہتے کیا ہو

    پکارے جا رہے ہو اجنبی سے چاہتے کیا ہو خود اپنے شور میں گم آدمی سے چاہتے کیا ہو یہ آنکھوں میں جو کچھ حیرت ہے کیا وہ بھی تمہیں دے دیں بنا کر بت ہمیں اب خامشی سے چاہتے کیا ہو نہ اطمینان سے بیٹھو نہ گہری نیند سو پاؤ میاں اس مختصر سی زندگی سے چاہتے کیا ہو اسے ٹھہرا سکو اتنی بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا

    زمیں پھر درد کا یہ سائباں کوئی نہیں دے گا تجھے ایسا کشادہ آسماں کوئی نہیں دے گا ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا جو پیاسے ہو تو اپنے ساتھ رکھو اپنے بادل بھی یہ دنیا ہے وراثت میں کنواں کوئی نہیں دے گا ملیں گے مفت شعلوں کی قبائیں ...

    مزید پڑھیے

    چہرہ لالہ رنگ ہوا ہے موسم رنج و ملال کے بعد

    چہرہ لالہ رنگ ہوا ہے موسم رنج و ملال کے بعد ہم نے جینے کا گر جانا زہر کے استعمال کے بعد کس کو خبر تھی مختاری میں ہوں گے وہ اتنے مجبور ہم اپنے سے شرمندہ ہیں ان سے عرض حال کے بعد اپنے سوا اپنے رشتے میں اور بھی کچھ دنیائیں تھیں ہم نے اپنا حال لکھا لیکن دیگر احوال کے بعد آنکھیں یوں ...

    مزید پڑھیے

    دن کو بھی اتنا اندھیرا ہے مرے کمرے میں

    دن کو بھی اتنا اندھیرا ہے مرے کمرے میں سایہ آتے ہوئے ڈرتا ہے مرے کمرے میں غم تھکا ہارا مسافر ہے چلا جائے گا کچھ دنوں کے لیے ٹھہرا ہے مرے کمرے میں صبح تک دیکھنا افسانہ بنا ڈالے گا تجھ کو اک شخص نے دیکھا ہے مرے کمرے میں در بہ در دن کو بھٹکتا ہے تصور میرا ہاں مگر رات کو رہتا ہے مرے ...

    مزید پڑھیے

    نہ بھول پائے تمہیں حادثہ ہی ایسا تھا

    نہ بھول پائے تمہیں حادثہ ہی ایسا تھا نہ بھر سکا کوئی اس کو خلا ہی ایسا تھا وہ مجھ میں رہ کے مجھے کاٹتا رہا پل پل زباں پہ آ نہ سکا ماجرا ہی ایسا تھا نظر نہ آئی کہیں دور دور تک کوئی موج میں غرق ہو گیا طوفاں اٹھا ہی ایسا تھا نہ آیا لطف کسی اور غم کو جھیلنے میں غم حیات ترا ذائقہ ہی ...

    مزید پڑھیے

    میری اک چھوٹی سی کوشش تجھ کو پانے کے لیے

    میری اک چھوٹی سی کوشش تجھ کو پانے کے لیے بن گئی ہے مسئلہ سارے زمانے کے لیے ریت میری عمر میں بچہ نرالے میرے کھیل میں نے دیواریں اٹھائی ہیں گرانے کے لیے وقت ہونٹوں سے مرے وہ بھی کھرچ کر لے گیا اک تبسم جو تھا دنیا کو دکھانے کے لیے آسماں ایسا بھی کیا خطرہ تھا دل کی آگ سے اتنی بارش ...

    مزید پڑھیے

    مرا قلم مرے جذبات مانگنے والے

    مرا قلم مرے جذبات مانگنے والے مجھے نہ مانگ مرا ہاتھ مانگنے والے یہ لوگ کیسے اچانک امیر بن بیٹھے یہ سب تھے بھیک مرے ساتھ مانگنے والے تمام گاؤں ترے بھولپن پہ ہنستا ہے دھوئیں کے ابر سے برسات مانگنے والے نہیں ہے سہل اسے کاٹ لینا آنکھوں میں کچھ اور مانگ مری رات مانگنے والے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے

    دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے نیزے پہ رکھ کے اور مرا سر بلند کر دنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے دل میں ترے خیال کی بنتی ہے اک دھنک سورج سا آئینے سے گزرتا دکھائی دے چل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3