Zafar Gorakhpuri

ظفر گورکھپوری

ممتاز ترقی پسند شاعر

Prominent poet associated with progressive movement.

ظفر گورکھپوری کی غزل

    اشک غم آنکھ سے باہر بھی نہیں آنے کا

    اشک غم آنکھ سے باہر بھی نہیں آنے کا ابر چھٹ جائیں وہ منظر بھی نہیں آنے کا اب کے آغاز سفر سوچ سمجھ کے کرنا دشت ملنے کا نہیں گھر بھی نہیں آنے کا ہائے کیا ہم نے تڑپنے کا صلہ پایا ہے ایسا آرام جو آ کر بھی نہیں آنے کا عہد غالبؔ سے زیادہ ہے مرے عہد کا کرب اب تو کوزے میں سمندر بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یقین کو سینچنا ہے خوابوں کو پالنا ہے

    یقین کو سینچنا ہے خوابوں کو پالنا ہے بچا ہے تھوڑا سا جو اثاثہ سنبھالنا ہے سوال یہ ہے چھڑا لیں مسئلوں سے دامن کہ ان میں رہ کر ہی کوئی رستہ نکالنا ہے جہان سوداگری میں دل کا وکیل بن کر اس عہد کی منصفی کو حیرت میں ڈالنا ہے جو مجھ میں بیٹھا اڑاتا رہتا ہے نیند میری مجھے اب اس آدمی کو ...

    مزید پڑھیے

    طریق گریہ اب اس سے بہتر نہیں ملے گا

    طریق گریہ اب اس سے بہتر نہیں ملے گا کہ ایک آنسو بھی کوئی باہر نہیں ملے گا یہ شہر بھیدوں بھرا یہاں آدمی ملیں گے مگر کسی کے بھی دوش پر سر نہیں ملے گا ملے گا دفتر تو چھوٹ جائے گا گھر کہیں پر جو گھر ملے گا کہیں تو دفتر نہیں ملے گا زمیں پہ پکی عمارتیں اگ رہی ہیں ایسے دوانے سر پھوڑنے ...

    مزید پڑھیے

    رہے نہ گھر کے ہوئے خوار یہ تو ہونا تھا

    رہے نہ گھر کے ہوئے خوار یہ تو ہونا تھا تری تلاش میں اے یار یہ تو ہونا تھا قطار جلتے چراغوں کی بر سر دیوار سیاہیاں پس دیوار یہ تو ہونا تھا زمین بانٹنے والوں کے ہم مخالف تھے ہمیں پہ آ گری تلوار یہ تو ہونا تھا گزر کے اک رہ پر خار سے یہاں پہنچے یہاں سے پھر رہ پر خار یہ تو ہونا ...

    مزید پڑھیے

    پل پل جینے کی خواہش میں کرب شام و سحر مانگا

    پل پل جینے کی خواہش میں کرب شام و سحر مانگا سب تھے نشاط نفع کے پیچھے ہم نے رنج ضرر مانگا اب تک جو دستور جنوں تھا ہم نے وہی منظر مانگا صحرا دل کے برابر چاہا اور یا آنکھوں بھر مانگا ابر کے احساں سے بچنا تھا دل کو ہرا بھی رکھنا تھا ہم نے اس پودے کی خاطر موجۂ دیدۂ تر مانگا فاصلے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    سلسلے کے بعد کوئی سلسلہ روشن کریں

    سلسلے کے بعد کوئی سلسلہ روشن کریں اک دیا جب ساتھ چھوڑے دوسرا روشن کریں اس طرح تو اور بھی کچھ بوجھ ہو جائے گی رات کچھ کہیں کوئی چراغ واقعہ روشن کریں جانے والے ساتھ اپنے لے گئے اپنے چراغ آنے والے لوگ اپنا راستہ روشن کریں جلتی بجھتی روشنی کا کھیل بچوں کو دکھائیں شمع رکھیں ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    ارادہ ہو اٹل تو معجزہ ایسا بھی ہوتا ہے

    ارادہ ہو اٹل تو معجزہ ایسا بھی ہوتا ہے دیے کو زندہ رکھتی ہے ہوا ایسا بھی ہوتا ہے سنائی دے نہ خود اپنی صدا ایسا بھی ہوتا ہے میاں تنہائی کا اک سانحہ ایسا بھی ہوتا ہے چھڑے ہیں تار دل کے خانہ بربادی کے نغمے ہیں ہمارے گھر میں صاحب رت جگا ایسا بھی ہوتا ہے بہت حساس ہونے سے بھی شک کو ...

    مزید پڑھیے

    تو پھر میں کیا اگر انفاس کے سب تار گم اس میں

    تو پھر میں کیا اگر انفاس کے سب تار گم اس میں مرے ہونے نہ ہونے کے سبھی آثار گم اس میں مری آنکھوں میں اک موسم ہمیشہ سبز رہتا ہے خدا جانے ہیں ایسے کون سے اشجار گم اس میں ہزاروں سال چل کر بھی ابھی خود تک نہیں پہنچی یہ دنیا کاش ہو جائے کبھی اک بار گم اس میں وہ جیسا ابر بھیجے جو ہوا سر ...

    مزید پڑھیے

    کون یاد آیا یہ مہکاریں کہاں سے آ گئیں

    کون یاد آیا یہ مہکاریں کہاں سے آ گئیں دشت میں خوشبو کی بوچھاریں کہاں سے آ گئیں کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں خواب شاید پھر ہوا آنکھوں میں کوئی سنگسار زیر مژگاں خون کی دھاریں کہاں سے آ گئیں شاید اب تک مجھ میں کوئی گھونسلہ آباد ...

    مزید پڑھیے

    ایک مٹھی ایک صحرا بھیج دے

    ایک مٹھی ایک صحرا بھیج دے کوئی آندھی میرا حصہ بھیج دے زندگی بچی ہے اس کا دل نہ توڑ خواب کی ننھی سے گڑیا بھیج دے عکس خاکہ دھند پرچھائیں غبار میرے قابل کوئی تحفہ بھیج دے سو برس کی عمر لے کر کیا کروں چین کا بے قید لمحہ بھیج دے آسماں بنت زمیں کے واسطے سات رنگوں کا دوپٹہ بھیج دے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3