جاری ہے کب سے معرکہ یہ جسم و جاں میں سرد سا
جاری ہے کب سے معرکہ یہ جسم و جاں میں سرد سا چھپ چھپ کے کوئی مجھ میں ہے مجھ سے ہی ہم نبرد سا جاتے کہاں کہ زیر پا تھا ایک بحر خوں کنار اڑتے تو بار سر بنا اک دشت لاجورد سا کس چاندنی کی آنکھ سے بکھری شفق کی ریت میں موتی سا ڈھل کے گر پڑا شام کے دل کا درد سا نازک لبوں کی پنکھڑیاں تھرتھرا ...