Zafar Ghauri

ظفر غوری

ظفر غوری کی غزل

    جاری ہے کب سے معرکہ یہ جسم و جاں میں سرد سا

    جاری ہے کب سے معرکہ یہ جسم و جاں میں سرد سا چھپ چھپ کے کوئی مجھ میں ہے مجھ سے ہی ہم نبرد سا جاتے کہاں کہ زیر پا تھا ایک بحر خوں کنار اڑتے تو بار سر بنا اک دشت لاجورد سا کس چاندنی کی آنکھ سے بکھری شفق کی ریت میں موتی سا ڈھل کے گر پڑا شام کے دل کا درد سا نازک لبوں کی پنکھڑیاں تھرتھرا ...

    مزید پڑھیے

    فصل گل کو ضد ہے زخم دل کا ہرا کیسے ہو

    فصل گل کو ضد ہے زخم دل کا ہرا کیسے ہو چاندنی بھی ڈس رہی ہے غم کی دوا کیسے ہو رات کی بلائیں ٹلیں تو شاخ صبح سے اتر ساحلوں سے پوچھتی ہے موج صبا کیسے ہو وقت کی نوازشوں نے خون کر دیا سفید سرگراں تھے ہم گلوں سے رنگ جدا کیسے ہو آسماں بھی تھک گیا ہے سر پہ ٹوٹ ٹوٹ کے چلتے چلتے ہے زمیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    سات رنگوں سے بنی ہے یاد تازہ

    سات رنگوں سے بنی ہے یاد تازہ دھوپ لکھ لائی مبارک باد تازہ بن گئی جنت تو ہجرت کر گئے ہیں نو بہ نو ہے دشت جاں آباد تازہ لفظ و معنی کا زیاں ہے خود عذابی لوح دل پر ہے قلم کی داد تازہ آب تازہ خنجر خاموش کو دے ہے بریدہ لب پہ پھر فریاد تازہ پھر بہانے جائے گا لاوا لہو کا خشت دل پر گھر کی ...

    مزید پڑھیے

    شب کے تاریک سمندر سے گزر آیا ہوں

    شب کے تاریک سمندر سے گزر آیا ہوں ٹوٹا تارہ ہوں خلاؤں سے اتر آیا ہوں تجھ سے جو ہو نہ سکا کام وہ کر آیا ہوں آسماں چھوڑ کے دھرتی پہ اتر آیا ہوں دشت تنہائی میں بکھرا ہوں ہواؤں کی طرح اک صدا بن کے دل سنگ میں در آیا ہوں جانے کس خوف سے پھرتا ہوں میں گھبرایا ہوا کیا بلا بن کے میں خود اپنے ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے تختے پر سمندر پار کرنے آئے تھے

    ٹوٹے تختے پر سمندر پار کرنے آئے تھے ہم سفر طوفان غم سے پیار کرنے آئے تھے ڈر کے جنگل کی فضا سے پیچھے پیچھے ہو لیے لوگ چھپ کر قافلے پر وار کرنے آئے تھے اس گنہ پر مل رہی ہے سنگ ساری کی سازی پتھروں کو نیند سے بیدار کرنے آئے تھے لوگ سمجھے اپنی سچائی کی خاطر جان دی ورنہ ہم تو جرم کا ...

    مزید پڑھیے

    ابھرتے ڈوبتے تاروں کے بھید کھولے گا

    ابھرتے ڈوبتے تاروں کے بھید کھولے گا فصیل شب سے اتر کر کوئی تو بولے گا یہ عہد وہ ہے جو قائل نہیں صحیفوں کا یہ حرف حرف کو مصلوب کر کے تولے گا اتر ہی جائے گا رگ رگ میں آج زہر سکوت وہ پیار سے مرے لہجے میں شہد گھولے گا مرا نصیب ہی ٹھہرا جو رابطوں کی شکست طلسم جاں کا بھی یہ قفل کوئی ...

    مزید پڑھیے

    دل میں رکھ زخم نوا راہ میں کام آئے گا

    دل میں رکھ زخم نوا راہ میں کام آئے گا دشت بے سمت میں اک ہو کا مقام آئے گا اس طرح پڑھتا ہوں بہتے ہوئے دریا کی کتاب صفحۂ آب پر اک عکس پیام آئے گا قریۂ جاں میں تھے یادوں کے شناسا چہرے اجنبی شہر میں کس کس کا سلام آئے گا مصلحت کیش تو گلہائے ستائش سے لدے سچ کے ہاتھوں میں وہی زہر کا جام ...

    مزید پڑھیے

    ترا یقین ہوں میں کب سے اس گمان میں تھا

    ترا یقین ہوں میں کب سے اس گمان میں تھا میں زندگی کے بڑے سخت امتحان میں تھا شجر شجر مری آمد کا منتظر موسم میں برگ گل سا ہواؤں کی اک اڑان میں تھا پٹک کے توڑ دیا جس نے تیشۂ جاں کو میں جوئے شیر سا پنہاں اسی چٹان میں تھا اندھیری رات میں سمت صدا پہ چھوڑ دیا ہوس کا تیر جو اس جسم کی کمان ...

    مزید پڑھیے

    شعلے سے چٹکتے ہیں ہر سانس میں خوشبو کے

    شعلے سے چٹکتے ہیں ہر سانس میں خوشبو کے آئی ہے صبا شاید وہ پھول سا تن چھو کے احساس کے جنگل میں اک آگ بھڑکتی ہے جھونکے کسی گلشن میں ہیں رقص کناں لو کے اوروں نے بھی پوجا ہے اے دوست تجھے لیکن یکساں تو نہیں ہوتے جذبات من و تو کے یہ عہد تمنا بھی اک دور قیامت ہے جب حسن پیے آنسو اور عشق ...

    مزید پڑھیے

    خواب رنگوں سے بنی ہے یاد تازہ

    خواب رنگوں سے بنی ہے یاد تازہ دھوپ لکھ لائی مبارک یاد تازہ پھر بہا لے جائے گا لاوا لہو کا سنگ دل پر گھر کی رکھ بنیاد تازہ آب تازہ خنجر خاموش کو دے ہے بریدہ لب پہ اک فریاد تازہ بے ستونی پھر اٹھائے سنگ سر ہے چاہتی ہے جوئے خوں فرہاد تازہ بے چراغاں بستیوں کو زندگی دے اک ستم ایسا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2