Syed Javed Akhtar

سید جاوید اختر

سید جاوید اختر کی نظم

    دو اکتوبر

    دو اکتوبر کے دن کا سورج کتنا ظالم تھا جب وہ نکلا نجم سحر ہی ڈوب گیا نجم سحر وہ جس نے اک دن مجھ کو راہ دکھائی تھی جیون کی پگڈنڈی پر چلتے رہنے کی امید دلائی تھی دو اکتوبر کا وہ دن کتنا بھیانک لگتا تھا خون کی آندھی لے کر آیا میرے دل کے کمرے میں روشن تھا جو ایک چراغ ایک ہی جھونکے سے گل ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    جھلمل کرتے جسموں کی جانب مت دیکھو آشاؤں کی بھٹی ہیں یہ محرومی کے انگارے ہیں چھوؤگے اپنی نظروں سے گر ان زہریلی بیلوں کو آنکھیں پتھر ہو جائیں گی اور فضا میں محرومی کے شعلے ہر دم رقص کریں گے

    مزید پڑھیے

    ادھوری

    میں نے جس کو رخصت کیا تھا اپنے ہی ہاتھوں سے چھ دن پہلے جی یہ چاہا فون تو کر لوں اس کو اس کی اک آواز تو سن لوں فون ملایا جوں ہی میں نے بیٹی میری بولی ہیلو ہیلو ہی بس میں کر پایا جانے کیسے دل بھر آیا ٹوٹ گیا پھر ضبط کا بندھن آنکھ میں اترے بھادوں ساون روتے روتے سسکی ابھری میلوں دور سے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے نام

    اور بھی تیز ہو لو چتا کی جسم تو جل چکا روح بھی جل بجھے آرزو کی نمائش مجھے اور کچھ مضطرب تو کرے تم مری راکھ کو چومنا تم مری روح کی گمشدہ گونج کو ڈھونڈھنا کہ شاید پس مرگ تم کو مری چاہتوں کے تقدس پہ کچھ تو یقین ہو

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2