Syed Javed Akhtar

سید جاوید اختر

سید جاوید اختر کی نظم

    اک ننھا سا گھر

    تمہیں اک خوب صورت ننھے سے گھر کی تمنا تھی جسے تم اپنا کہہ سکتیں سجا سکتیں جہاں کے بام و در کو اپنی مرضی سے مگر افسوس عمر مختصر گزری کرائے کے مکانوں میں زمانہ کج ادا ہے جیتے جی اک قطعۂ اراضی نہیں دیتا بجز دولت مگر جب خاک ہو جائیں تو مرقد کے لیے مل جائے زمیں ہم کو بنا مانگے چلو اچھا ...

    مزید پڑھیے

    اک گمشدہ شہر

    بڑا شوق تھا کہ بسیں شہر لاہور میں چھوڑ کر زندگی یہ مضافات کی چل رہیں اس نگار وطن میں کہ جس میں ہیں ہر سو مہکتی فضائیں برستی ہیں مخمور کالی گھٹائیں یہ لاہور تھا میرے خوابوں کا مسکن مری چاہتوں کا ختن گزارے تھے عہد جوانی میں میں نے یہاں سینکڑوں دن برس ہا برس تک رہا میں مقید بہت دور ...

    مزید پڑھیے

    فرار

    آج کی شب جبکہ ہر سو ہوں گی چھائی ہوئی خامشی کی گپھائیں میں دھیرے سے اٹھ کر بدھ کی مانند چلا جاؤں گا گھنے پر سکوں جنگلوں کی طرف کہ ہر روز میرے گھر کی تباہی مجھے کاٹنے دوڑتی ہے تنہا و بے آسرا دیکھ کر

    مزید پڑھیے

    مزدور

    ڈھائی من آٹے کی بوری جب اس نے اپنے کاندھوں سے تانگے میں لڑھکائی اور اپنی پیشانی پر سے خون پسینہ بن کر بہتا پانی پونچھا اس کے پاس کھڑی بیگم نے اپنے چمکیلے بٹوے کو لہرا کر اس سے پوچھا کیوں بے لڑکے کتنے پیسے لو گے تم وہ گھگھیایا بی بی جی! جو مرضی دے دیں یہ سن کر میری نس نس میں غصے اور ...

    مزید پڑھیے

    شکست بدن

    اداس سی تھی وہ شام کتنی کہ اس کی تازہ لحد پہ جس دم بہ چشم نم میں کھڑا ہوا تھا ببول کہنہ کی پتیوں میں اک ٹمٹماتا ہوا ستارہ نہ جانے کیسے ٹھہر گیا تھا دھڑکتے دل سے میں سوچتا تھا تھی کیسی نازک وہ میری ساتھی مزاج کتنا تھا اس کا اونچا کہ جامہ زیبی تھی ختم اس پر مدام خوشبو میں مہکی رہتی وہ ...

    مزید پڑھیے

    قرۃ العین کی رخصتی پر

    کلیاں جب کھلتی ہیں تو سندر لگتی ہیں میرے گھر میں بھی تھے چار شگوفے پھوٹے آنگن ان کی خوشبو سے تھے مہکے آہ مگر یہ رسم دنیا جس سے بچ نہ پائیں کٹ کر اپنی شاخ سے سب گل غیروں کے گھر جائیں سوئے میری مومو پیاری تم پر پایا جاں سے واری دو ٹکڑے تو پہلے دل کے کاٹ چکا تھا اب آئی ہے تیری باری دلہا ...

    مزید پڑھیے

    گدھ

    لیے ہاتھ میں ایک چھوٹا اسپیکر جناب مشرف یہ فرما رہے تھے مرے بھائیو اور میرے بزرگو مجھے علم ہے کہ تباہی مچائی بڑی زلزلے نے مصائب تمہارے سبھی جانتا ہوں تمہارے دکھوں پہ میری رات کی نیند اڑ گئی ہے جناب مشرف خطابت کے جوہر دکھا ہی رہے تھے کہ مجمع سے اک شخص اٹھا مخاطب کیا اس نے عالی قدر ...

    مزید پڑھیے

    آواگون

    زندگانی کی پتنگ سانس کی نازک سی ڈوری پر ہے پرواز آزما کون جانے کب کہاں ڈوری کا رشتہ ٹوٹ جائے اور کاغذ کا بدن اندھی ہوا کے دوش پر ہولے ہولے رفتہ رفتہ وادیوں دریاؤں پہاڑوں صحراؤں سے گزر کر جا گرے اک اجنبی سے دیس میں

    مزید پڑھیے

    اس کی یاد میں

    مجھے جس کو دیکھے ہوئے آج ہے سولہواں دن گھڑی در گھڑی یاد اس کی مرے ذہن میں دائرے بن رہی ہے کہ جیسے کسی سبز و شاداب وادی کی پہنائیوں میں ہو اک چشمۂ آب حیواں مسلسل گریں جس میں کنکر بنیں نغمۂ موج کی تال پر ننھے منے ہیولے بنیں بن کے بکھریں بکھر کے بنیں فقط سولہواں روز ہے اور میں اس کی ...

    مزید پڑھیے

    تشنگی

    آنکھ کے شیشوں میں اترے ان گنت چہرے مگر کوئی بھی نہ روح کا گوتم ہوا اندھی گلیوں کے نگر میں میں بھٹکتا ہی رہا دل کے دروازے پہ دستک تیرگی دیتی رہی کوئی بھی نہ ماہ کامل چاہتوں کی جھیل میں عکس آرا ہو سکا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2