ہر درد کو کر لیا گوارا میں نے
ہر درد کو کر لیا گوارا میں نے طوفاں کو سمجھ لیا کنارا میں نے جو اشک بھی میری چشم تر سے ٹپکا قسمت کا بنا لیا ستارہ میں نے
ہر درد کو کر لیا گوارا میں نے طوفاں کو سمجھ لیا کنارا میں نے جو اشک بھی میری چشم تر سے ٹپکا قسمت کا بنا لیا ستارہ میں نے
آغوش میں آ کہ کامرانی کر لوں کچھ روز خوشی سے زندگانی کر لوں اک جام مے طرب پلا دے ساقی فانی ہے حیات جاودانی کر لوں
افسانۂ غم ہے شادمانی میری میں کون ہوں اور کیا جوانی میری ہنستا ہوں کہ مقتضائے ہستی ہے یہ روتا ہوں کہ زندگی ہے فانی میری
یوں کون سی چیز ہے جو دنیا میں نہیں آنسو ساگر جہان پیدا میں نہیں اس قطرے میں کائنات غم ہے پنہاں اس قطرے کی وسعتیں تو دریا میں نہیں
برسات کی چھا گئیں گھٹائیں ساقی مے خانہ بہ دوش ہیں ہوائیں ساقی ہر ذرہ سرور کی بنا ہے تصویر آ ہم بھی ذرا پئیں پلائیں ساقی
ہے فطرت زن رمیدہ آہو کی طرح چھو لو تو لرز جائے لجا لو کی طرح اس حسن کے پھول کو سنبھل کر دیکھو اڑ جائے نہ کہیں یہ بھی خوشبو کی طرح
یہ شوق شراب و جام و مینا کیسا ساقی نہیں تو اگر تو پینا کیسا آنکھوں سے نہاں ہے تو تو ہستی کیا ہے آغوش میں تو نہیں تو جینا کیسا
ارباب وفا کی جاں گدازی دیکھی اور اس پر ستم کی سرفرازی دیکھی مفلس کا نیاز ہو کہ منعم کا غرور ہر چیز میں تیری بے نیازی دیکھی
خاموشی کا راز کھولنا بھی سیکھو آنکھوں کی زباں سے بولنا بھی سیکھو لب کیسے کہیں گے دل کی ساری باتیں نظروں سے نظر ٹٹولنا بھی سیکھو
آساں نہیں حال دل عیاں ہو جانا خاموشی سے تم نہ بد گماں ہو جانا خودداریٔ عشق نے سکھایا مجھ کو دل دے کے کسی کو بے زباں ہو جانا