نہ جانے کٹ گیا کس بے خودی کے عالم میں
نہ جانے کٹ گیا کس بے خودی کے عالم میں وہ ایک لمحہ گزرتے جسے زمانہ لگے وہ ذوق و شوق محبت کی واردات نہ پوچھ جو آج خود بھی سنوں میں تو اک فسانہ لگے
نہ جانے کٹ گیا کس بے خودی کے عالم میں وہ ایک لمحہ گزرتے جسے زمانہ لگے وہ ذوق و شوق محبت کی واردات نہ پوچھ جو آج خود بھی سنوں میں تو اک فسانہ لگے
ترے فراق میں زہراب غم پیے جاؤں ہزار موت کے صدمے سہوں جیے جاؤں بغیر دوست کے جینا گناہ ہے لیکن جو تو کہے تو میں یہ بھی گناہ کیے جاؤں
جوانی کے زمانے یاد آئے محبت کے فسانے یاد آئے بھلانے پر بھی ان کی یاد آئی مجھے وہ ہر بہانے یاد آئے
لہو فقیروں کا سوز یقیں سے تھا جب گرم وہ نوچتے تھے گریبان بادشاہوں کے رہی نہ سینے میں جس دم حرارت ایماں سمٹ کے رہ گئے گوشوں میں خانقاہوں کے
دل کی ہر آرزو ہے خوابیدہ اب نہ وہ کیفیت نہ سوز نہ رنگ ہر نظر ایک شعلۂ بے نور ہر نفس ایک ساز بے آہنگ
آج کچھ مضمحل سی یادوں کے یوں سلگنے لگے ہیں افسانے جیسے اک نیم سوز شمع کے گرد سسکیاں لے رہے ہوں پروانے
جو سفر بھی تھا زندگانی کا یونہی بے رسم و راہ ہم نے کیا خود گناہوں کو شرم آئی ہے ایسا ایسا گناہ ہم نے کیا