علم کے تھے بہت حجاب مگر
علم کے تھے بہت حجاب مگر حسن کا سحر پر فسوں ہی رہا عقل نے لاکھ کی عناں گیری عشق آمادۂ جنوں ہی رہا
علم کے تھے بہت حجاب مگر حسن کا سحر پر فسوں ہی رہا عقل نے لاکھ کی عناں گیری عشق آمادۂ جنوں ہی رہا
کتنی ہنگامہ خو تمنائیں مضمحل ہو کے رہ گئیں دل میں جیسے طوفاں کی مضطرب موجیں سو گئی ہوں کنار ساحل میں
یہ ہوائیں تو موافق تھیں بہت کیوں ہواؤں نے ڈبو دی کشتی ایک طوفاں کے شناور نے کہا ناخداؤں نے ڈبو دی کشتی
پوچھتا کیا ہے ہم نشیں مجھ سے کس لیے ضبط آہ کرتا ہوں کہہ تو دوں تجھ سے حال دل اپنا تیری غم خواریوں سے ڈرتا ہوں
عشق کی ابتدا ہے سوز دروں عشق کی انتہا ہے ذوق نگاہ دل اگر سرد ہے تو عشق جنوں اور اگر پست ہے نظر تو گناہ
تمنا کچھ تو لے آتی ہے لب پر یہ کچھ قصے سناتی ہے نظر سے مگر ہے آنکھ ایسی راز پرور نظر کو بھی چھپاتی ہے نظر سے
اٹھاتے ہیں مزے جور و ستم کے کچھ ایسے خوگر بیدار ہیں ہم قفس کی تیلیاں ٹوٹیں تو پھر کیا اسیر الفت صیاد ہیں ہم
آنسوؤں میں الم کا رنگ نہ تھا قہقہوں میں خوشی کی بات نہ تھی تھے عجب ڈھنگ زندگانی کے کوئی بھی زندگی کی بات نہ تھی
اے دوست نہ پوچھ مجھ سے کیا ہے بے تابیٔ عشق کا فسانہ انسان کی زندگی ہے فانی اور دل کی تڑپ ہے جاودانہ
ہر خزاں غارت گر چمن ہی سہی پھر بھی اک سر خوشی بہار میں ہے موت پر اختیار ہو کہ نہ ہو زندگی اپنے اختیار میں ہے