Shamsur Rahman Faruqi

شمس الرحمن فاروقی

شاعر، فکشن نگار اورایک نمایاں اردو تنقید نگار

Poet, fiction writer and one of the leading Urdu critics

شمس الرحمن فاروقی کی نظم

    بس بھئی سورج

    آنکھیں جب چمکاتے ہو جان کو بس آ جاتے ہو کلیوں کو بھی مرجھاتے ہو کتنے گندے بن جاتے ہو بس بھئی سورج بس کتا کیسا کانپ رہا ہے زباں نکالے ہانپ رہا ہے کونے میں خود کو ڈھانپ رہا ہے اس کو کتنا ستاتے ہو بس بھئی سورج بس سر کو جھکائے چڑیاں ساری دھوپ کی ماری ڈر کی ماری چپکی بیٹھیں سب بے ...

    مزید پڑھیے

    بیان صفائی

    رات اترتی گئی مجھ کو خبر ہی نہ تھی کاغذ بے رنگ میں سرد ہوس جنگ میں صبح سے مصروف لوگ اپنی چادر میں بند آنکھ کھٹکتی نہیں دل پہ برستی نہیں خشک ہنسی بے نمک شہر فضا میں بلند تنگ گلی کی ہوا شام کو چوہوں کی دوڑ تیز قدم گربۂ شاہ جہاں کب جھپٹ لے گی کسے کیا پتہ نیند کا اونچا مکاں ...

    مزید پڑھیے

    مور نامہ

    اس جنگل میں مور بہت ہیں نیلے پیلے چور بہت ہیں دن بھر موروں کی جھنکار اوپر نیچے چیخ پکار شیر میاں کو نیند نہ آئی لے کر اک لمبی سی جمائی لومڑی بی سے کہلایا موروں کو کس نے بلوایا مور تو کرتے شور بہت ہیں اس جنگل میں مور بہت ہیں نیلے پیلے چور بہت ہیں رات کا آنگن چاندی جیسا دن کا چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    تین شاموں کی ایک شام

    یہ سرمئی سی شام رگوں میں جس کی دوڑتا ہے خوں شفق کے لالہ زار کا کسی حسینہ کی اتاری اوڑھنی کی طرح ملگجی سی شام جو لمحہ لمحہ خامشی کے بند کی اسیر ہے یہ آسماں کی سمت منہ اٹھا کے کس کو یاد کرتی ہے یہ مثل داغ لالۂ چمن سیاہ آنکھوں میں جو آنسوؤں کا نور بھرتی ہے تو کیا اسے بھی ہے خبر کہ ...

    مزید پڑھیے

    در پائے اجل

    گھر میں کچھ بھی نہیں تاریک سی خوشبو کے سوا کچھ چمکتا نہیں اب خوف کے جگنو کے سوا دم کہسار میں ڈھونڈا تو نہ نکلا کچھ بھی برف پر چھڑکی ہوئی خون کی خوشبو کے سوا اس کا چھپنا تھا کہ آنکھوں میں مری کچھ نہ رہا سرمئی سبز منور رم آہو کے سوا

    مزید پڑھیے

    اندھیری شب سے ایک لا حاصل

    اندھیری شب کے شرمیلے معطر کان میں اس نے کہا وہ شخص دور افتادہ لیکن میرے دل کی طرح روشن ہے جو میرے پاؤں کے تلوے ہتھیلی کے گلابی گال میں کانٹا سا چبھتا ہے جو میرے جسم کی کھیتی پہ بارش کا چھلاوا ہے وہ جس کی آنکھ کی قاتل ہوس اک منتظر لیکن نہ ظاہر ہونے والے پھول کی مانند بے چینی میں ...

    مزید پڑھیے

    رات شہر اور اس کے بچے

    سرد میدانوں پہ شبنم سخت سکڑی شاہ راہوں منجمد گلیوں پہ جالا نیند کا مصروف لوگوں بے ارادہ گھومتے آوارہ کا ہجوم بے دماغ اب تھم گیا ہے رنڈیوں زنخوں اچکوں جیب کتروں لوطیوں کی فوج استعمال کردہ جسم کے مانند ڈھیلی پڑ گئی ہے سنسناتی روشنی ہواؤں کی پھسلتی گود میں چپ اونگھتی ہے فرش ...

    مزید پڑھیے

    ماہ منیر

    خلاؤں کے اندھے مسافر سے پوچھیں وہ اک ذرۂ خاک سے ٹوٹ کر دور لا انتہا وسعتوں اور بے سمت راہوں کی پر ہول خاموشیوں میں بھٹکتا پھرا تھا ہواؤں کے رہوار پر برق رفتار صدیاں گزرتی رہیں اس کی راہوں میں پل بھر کو آہٹ نہ آئی زمیں آتشیں گویا چوگاں خلا میں لڑھکتی ہوئی یوں ہی بے مدعا رقص کرتی ...

    مزید پڑھیے

    سبز سورج کی کرن

    سبز بلی سبز آنکھیں سبز سورج کی کرن جب نیم خوابی کی طرح اس آنکھ اوپر جھولتی ہے جھومتی ہے سبز آنکھیں سبز روشن رنگ کی باریک لہریں ارغوانی قرمزی تھوڑا بہت سونے کا جھلمل رنگ آنکھیں زندگی بنتی ہیں دھندلی روشنی میں سبز بھوری آنکھیں کھلتی ہیں تو فوراً قمقمے سی کھلکھلاتی بے محابا ...

    مزید پڑھیے

    من عرف نفسہ

    روشنی کی ایک ننھی سی لکیر میرے کمرے کے اندھیرے کا بدن چپکے چپکے ٹٹولتی ہے جس طرح حبشی حسینہ کے ڈھلے صندل کے سے آبنوسی جسم کے اعصاب میں تیز سوئی کی اچانک اک چبھن سرسراتے سانپ کی مانند دوڑاتی ہے خوں جھنجھنا اٹھتے ہیں سارے تار و پو اور پھر آہستہ آہستہ کہیں زیر سطح جان و دل یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2