سیما غزل کی نظم

    یہ دسمبر ہے

    سنو میں جانتی ہوں یہ دسمبر ہے وہاں سردی بہت ہوگی اکیلے شام کو جب تم تھکے قدموں سے لوٹو گے تو گھر میں کوئی بھی لڑکی سلگتی مسکراہٹ سے تمہاری اس تھکاوٹ کو تمہارے کوٹ پر ٹھہری ہوئی بارش کی بوندوں کو سمیٹے گی نہ جھاڑے گی نہ تم سے کوٹ لے کر وہ کسی کرسی کے ہتھے پر اسے لٹکا کے اپنے نرم ...

    مزید پڑھیے

    رابطہ

    جانتے تو ہو گے تم اتنی تیز بارش میں رابطے نہیں رہتے نیٹ ورک نئیں ملتا فون کی بھی لائنیں بارشوں کے پانی سے ایسے ٹوٹ جاتی ہیں جس طرح محبت میں بے وفا کی باتوں سے دل ہی ٹوٹ جائے تو رابطے نہیں رہتے

    مزید پڑھیے

    ہیلو

    کسی نے یہ بتایا تھا کہ بس تم آنے والے ہو بہت اچھا کیا تم نے مرا یہ بوجھ کم ہوگا تمہاری چند چیزیں تھیں ذرا ٹھہرو مجھے کچھ یاد کرنے دو ہوں ہاں وفا کی بے اثر قسمیں محبت کے کئی دعوے بہت بے ربط باتوں کے کئی ٹوٹے ہوئے ٹکڑے ہنسی کا کھوکھلا پن بھی پرانے سے کئی جھوٹے بہانوں کے ذرا کچھ ...

    مزید پڑھیے

    پرندہ

    بہت سفاک ہو تم بھی محبت ایسے کرتے ہو کہ جیسے گھر کے پنجرے میں پرندہ پال رکھا ہو

    مزید پڑھیے

    بادل

    چلو اتنا تو ہو پایا کہ تم نے بادلوں کے چند ٹکڑوں کو ہمارے پاس بھیجا ہے ہماری پیاس کی خاطر ذرا سی آس بھیجی ہے چٹختے اور پیاسے نیلے ہونٹوں کو تصور میں خیالوں میں کسی بے وصل اور بے موسمی غم کی نمی کا نرم گیلا اور گلابی سا کوئی احساس تو ہوگا جسے میں نے دعا کی شاخ سے باندھا ہوا ہے اب بدن ...

    مزید پڑھیے

    اثاثہ

    میں اپنی قیمتی چیزیں بھی اکثر بھول جاتی ہوں کہیں بھی جا کے ٹھہروں میں کسی کے پاس بھی جاؤں کبھی ٹیرس کبھی آنگن کبھی کمرے میں بھی اکثر کچھ اپنی پچھلی یادوں کو کبھی کچھ چاند راتوں کو اور اکثر ادھ بنے سے کچھ ادھورے خواب کے گچھے وہیں پر چھوڑ آتی ہوں میں اکثر بھول جاتی ہوں وہ جو میں ...

    مزید پڑھیے

    ڈک لائن

    میں جینے کی تمنا لے کے اٹھتی ہوں مگر جب دن گزرتا ہے سنہری دھوپ کی کرنیں کسی دریا کنارے پر اترتی شام کے بکھرے ہوئے چمکیلے بالوں سے لپٹ کر سونے لگتی ہیں ہوا بیزار ہو کر پھر تھکے پنچھی کی بانہوں میں سمٹ کر بیٹھ جاتی ہے زمیں کا شور بھی تب رفتہ رفتہ ماند پڑتا ہے فلک کے آخری کونے پہ جس ...

    مزید پڑھیے

    شکایت

    مجھے تم سے شکایت ہے کہ تم نے عمر بھر مجھ کو خبر یہ بھی نہ ہونے دی تمہیں مجھ سے محبت تھی

    مزید پڑھیے

    عدالت

    میں اپنی عدالت میں مجرم کھڑی ہوں مجھے میرے جذبوں مری خواہشوں نے گرفتار کر کے سر عام ذلت سے دو چار کر کے یہ دعویٰ کیا ہے انہیں قید رکھا اور اکثر انہیں حبس بے جا میں رکھ کر زد و کوب کر کے انہیں مار دینے کی حد تک اذیت بھی دی ہے میں اپنی عدالت میں مجرم کھڑی ہوں

    مزید پڑھیے