Roohi Kanjahi

روحی کنجاہی

روحی کنجاہی کی غزل

    ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

    ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے دشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے شفاف بھی رکھنا ہے گلشن کی فضاؤں کو ہر برگ گل تر کو تلوار بھی ...

    مزید پڑھیے

    پر ہول خرابوں سے شناسائی مری ہے

    پر ہول خرابوں سے شناسائی مری ہے ہنگامے اگر تیرے ہیں تنہائی مری ہے اے حسن تو ہر رنگ میں ہے قابل عزت میں عشق ہوں ہر حال میں رسوائی مری ہے جو سطح پہ ہے تیری رسائی ہے اسی تک فن کار ہوں میں زیست کی گہرائی مری ہے ہستی کے اجالے ہیں مری آنکھ کا پرتو ہر چشمۂ پر نور میں بینائی مری ہے ہر ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس حسین نے لوگوں کو روک رکھا ہے

    یہ کس حسین نے لوگوں کو روک رکھا ہے تمام شہر کے رستوں کو روک رکھا ہے نکل پڑیں نہ کہیں پانے اپنی تعبیریں اسی لیے سبھی خوابوں کو روک رکھا ہے وہ کہہ رہے ہیں کہو دل کی بات بات مگر نہ جانے کیوں کئی باتوں کو روک رکھا ہے دلیلیں دینے کو دے سکتے ہیں ہزار مگر سبھی حوالوں جوازوں کو روک رکھا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3