Roohi Kanjahi

روحی کنجاہی

روحی کنجاہی کی غزل

    تجھ پہ ہر حال میں مرنا چاہوں

    تجھ پہ ہر حال میں مرنا چاہوں میں تو یہ کام ہی کرنا چاہوں حاصل زیست ہے جرم الفت مر کے بھی میں نہ مکرنا چاہوں اپنے اسلوب میں چاہوں جینا اپنے انداز میں مرنا چاہوں متوجہ کرے کوئی تو اسے مثل گل میں بھی نکھرنا چاہوں کتنا محدود ہوا جاتا ہوں میں کہ ہر حد سے گزرنا چاہوں ایک جگنو ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ہزار رنگ جلال و جمال کے دیکھے

    ہزار رنگ جلال و جمال کے دیکھے وہ معرکے ترے حسن خیال کے دیکھے سمجھ میں آنے لگا مقصد حیات و ممات وہ زاویے ترے ہجر و وصال کے دیکھے ہر ایک غم ہے تر و تازہ پہلے دن کی طرح امانتیں کوئی یوں بھی سنبھال کے دیکھے فضا نہ بجھنے لگے اس خیال سے اکثر دل و نگاہ کے رستے اجال کے دیکھے نگر بھی اور ...

    مزید پڑھیے

    اب تو یوں لب پہ مرے حرف صداقت آئے

    اب تو یوں لب پہ مرے حرف صداقت آئے ناگہاں شہر پہ جیسے کوئی آفت آئے مصلحت ہو گئی ممنوعہ شجر کی صورت لاکھ روکوں مگر اس پر ہی طبیعت آئے دخل خوشیوں کا مری زیست میں کیسے ہو کہ جب تیرا غم بھی غم دوراں کی بدولت آئے جس پہ میں چھاپ سکوں سکۂ خود مختاری زندگی میں کوئی ایسی بھی تو ساعت ...

    مزید پڑھیے

    معجزہ کوئی دکھاؤں بھی تو کیا

    معجزہ کوئی دکھاؤں بھی تو کیا چاند میں شہر بساؤں بھی تو کیا یاد آتا ہے برابر کوئی میں اسے یاد نہ آؤں بھی تو کیا ربط پہلے ہی نہیں کم اس سے رابطہ اور بڑھاؤں بھی تو کیا وہ نہ بدلے گا رویہ اپنا میں اگر بات نبھاؤں بھی تو کیا جانے مجبور ہے کتنا وہ بھی کچھ اسے یاد دلاؤں بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی

    اپنی مرضی ہی کرو گے تم بھی کچھ کسی کی نہ سنو گے تم بھی وقت سے بچ نہ سکو گے تم بھی جو کرو گے وہ بھرو گے تم بھی ایک آواز سنی ہے ہم نے ایک آواز سنو گے تم بھی آج آندھی ہو تو مٹی کی طرح ایک دن بیٹھ رہو گے تم بھی آج سرکار بنے بیٹھے ہو کل کو فریاد کرو گے تم بھی یہی ہوتا ہے یہی ہونا ہے ایک ...

    مزید پڑھیے

    یوں آج اپنے آپ سے الجھا ہوا ہوں میں

    یوں آج اپنے آپ سے الجھا ہوا ہوں میں جیسے کہ خود نہیں ہوں کوئی دوسرا ہوں میں ذہن اور دل میں چھیڑ گیا کوئی سرد جنگ اک سیل کشمکش کے مقابل کھڑا ہوں میں آ جائے سامنے کوئی معیار تو ترا یہ سوچ کر نگاہ سے اکثر گرا ہوں میں خود کو تو کھو کے تجھ کو نہیں پا سکا مگر کھویا تجھے تو جانے کسے پا ...

    مزید پڑھیے

    یاد آتے ہو کس سلیقے سے

    یاد آتے ہو کس سلیقے سے جیسے بارش ہو وقفے وقفے سے یاد کوئی رہی ہو وابستہ جیسے ہر رت کے خاص لمحے سے جیسے یہ بھی ہو حسن کا انداز بات کرنا مگر تقاضے سے موسم گل کو کوئی بتلا دو دل بھی کھلتا ہے پھول کھلنے سے رات کا اپنا حسن ہوتا ہے رات کو دیکھ دن کے شیشے سے میرے سینے میں رکھ گیا ہر ...

    مزید پڑھیے

    ظالم پہ عذاب ہو گیا ہوں

    ظالم پہ عذاب ہو گیا ہوں میں روز حساب ہو گیا ہوں ہر لفظ مرا ہے ایک گھاؤ زخموں کی کتاب ہو گیا ہوں میں خود میں سمٹ کے تھا سمندر پھیلا تو حباب ہو گیا ہوں خود اپنی تلاش کر رہا تھا دیکھا تو سراب ہو گیا ہوں یوں اٹھ گیا اعتبار ہستی میں خود کوئی خواب ہو گیا ہوں مٹی ہوئی یوں خراب ...

    مزید پڑھیے

    پھر کوئی حادثہ ہوا ہی نہیں

    پھر کوئی حادثہ ہوا ہی نہیں کوئی ان کی طرح ملا ہی نہیں ہو چکی پتھروں کی بارش تک زخم احساس جاگتا ہی نہیں سر سے پانی گزر چکا ہے مگر دل کسی طور ڈوبتا ہی نہیں طے ہوئے مرحلے کئی لیکن فاصلہ تو کوئی مٹا ہی نہیں ان کو کیا کیا گلے رہے ہم سے ہم کو جن سے کوئی گلہ ہی نہیں آس نے آ کے دم کہاں ...

    مزید پڑھیے

    یہ سلسلۂ شام و سحر یوں ہی نہیں ہے

    یہ سلسلۂ شام و سحر یوں ہی نہیں ہے ہر قافلہ سرگرم سفر یوں ہی نہیں ہے ہنگامے بپا کرتی ہے ہر آن تری یاد پر شور دل و جاں کا نگر یوں ہی نہیں ہے تاریخ سنا سکتی ہے صدیوں کے سفر کی یہ گرد سر راہ گزر یوں ہی نہیں ہے ابھرے گا یقیناً کوئی دم میں کوئی سورج بیتابیٔ ارباب نظر یوں ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3