سن سکتے ہو نغمہ آج بھی تم میرا
سن سکتے ہو نغمہ آج بھی تم میرا زندوں میں بھی باقی ہے ترنم میرا لاکھوں ہونٹوں کی تازگی ہے اس میں کمھلا ہی نہیں سکتا تبسم میرا
سن سکتے ہو نغمہ آج بھی تم میرا زندوں میں بھی باقی ہے ترنم میرا لاکھوں ہونٹوں کی تازگی ہے اس میں کمھلا ہی نہیں سکتا تبسم میرا
میں منکر اسلاف نہیں ہوں یارو کچھ حاسد اوصاف نہیں ہوں یارو ہر شعر میں بھرتا ہوں مگر وقت کی آگ شاعر ہوں سخن باف نہیں ہوں یارو
لذت میں خودی کی کھو گیا ہے زاہد دور دور خدا سے ہو گیا ہے زاہد سنتا نہیں اب شکستہ مسجد کی صدا سجدے میں کچھ ایسا سو گیا ہے زاہد
ظلمت کا طلسم توڑ کر لایا ہوں پنجا شب کا مروڑ کر لایا ہوں اے صبح کا نور پینے والو دوڑو تاروں کا لہو نچوڑ کر لایا ہوں
ہونٹوں کو شراب اب پلا دے ساقی رگ رگ میں اک آگ لگا دے ساقی تاریک ہوئی جاتی ہے بزم ہستی ساقی! ساقی! تو مسکرا دے ساقی
سیاروں میں ساحل ہے وہ عظمت تجھ کو کرتی ہے سلام جھک کے رفعت تجھ کو لے ہاتھ میں اے زمین پرچم اپنا کرنی ہے ستاروں کی قیادت تجھ کو
روتا ہی رہوں گا مسکرانے تو دو دم بھر کے لئے سکون پانے تو دو اٹھ جائے گی خود رخ توقع سے نقاب کچھ اور فریب کھانے تو دو
کیا رنگ زمین و آسماں ہے ساقی اترا ہوا چہرۂ جہاں ہے ساقی لو دینے لگے وقت کے عارض جس سے وہ بہتی ہوئی آگ کہاں ہے ساقی
سہمے سہمے دلوں میں ہمت جاگی غیرت نے جھنجھوڑا تو مشقت جاگی محکومی کی نیند کا شکنجہ ٹوٹا وہ دیکھو پو پھٹی وہ بغاوت جاگی