کشتیٔ حیات کھے سکوں گا کیوں کر
کشتیٔ حیات کھے سکوں گا کیوں کر ہمت کا میں ساتھ دے سکوں گا کیوں کر ساقی نہ اگر تیرا سہارا ہوگا جینے کا میں نام لے سکوں گا کیوں کر
کشتیٔ حیات کھے سکوں گا کیوں کر ہمت کا میں ساتھ دے سکوں گا کیوں کر ساقی نہ اگر تیرا سہارا ہوگا جینے کا میں نام لے سکوں گا کیوں کر
بلبل کی زباں تک جلا ڈالی ہے مسموم ہوائے گل بنا ڈالی ہے ان آگ کے تاجروں نے اے ابر بہار گلشن میں بھی بارود بچھا ڈالی ہے
دل ہی کی طرح منہ بھی ہے کالا دیکھو اس پر نماز کا یہ اجالا بھی دیکھو بستر ہی پہ سر ٹیک رہی ہے ظالم دم توڑتی دولت کا سنبھالا دیکھو
مستی میں نظر چمک رہی ہے ساقی ساری محفل مہک رہی ہے ساقی کیا کیف رباعیوں میں بھر لایا ہوں ہر لفظ سے مے چھلک رہی ہے ساقی
نالوں سے کبھی نام نہ لوں گا اے دوست رسوائی کا الزام نہ لوں گا اے دوست بد نام نہ ہوگی کبھی خلوت تیری محفل میں ترا نام نہ لوں گا اے دوست
صحراؤں کی بات زاروں میں کہی روداد حیات استعاروں میں کہی حیرت ہے زمانے کو آخر کیوں کر پرویزؔ نے داستان اشاروں میں کہی
سیلاب بلا رقص نہ فرمائے کہیں سرکش طوفاں نہ بڑھ کے ٹکرائے کہیں ساحل کا طواف کرنے والو ہشیار ساحل پہ بھی دریا ہی نہ چھا جائے کہیں
ہر پتے میں اک دھار لئے چٹکیں گے ہر سانس میں تلوار لئے چٹکیں گے دہکے ہوئے فولاد کے ہیں ہم غنچے چٹکیں گے تو جھنکار لئے چٹکیں گے
عصمت پہ تری نثار ہونا ہے مجھے پھر دل کی زمیں میں ضبط بونا ہے مجھے آنسو مرے پروردہ نہیں ہیں اے دوست رونا بھی جو ہے تو چھپ کے رونا ہے مجھے
رندوں میں نہیں کوئی رقابت ساقی ضد ہے کہ پئیں گے باجماعت ساقی کیا ظلم ہے محتسب کے بہکانے پر اس کو بھی سمجھ گیا سیاست ساقی