Parvez Shahidi

پرویز شاہدی

پرویز شاہدی کی نظم

    انتظار

    قابل دید ہے مشاطگئ فصل بہار زلف سنبل میں نیا حسن نظر آتا ہے سرخئ چہرۂ گل سے ہے شفق زار چمن رنگ شبنم کا بھی کچھ سرخ ہوا جاتا ہے دیکھ کر سرخئ رخسار گلستاں گلچیں اپنے دستور میں ترمیم کیے جاتا ہے متنبہ بھی کیے جاتا ہے ہر پتے کو نام بھی فصل بہاراں کا لیے جاتا ہے زیر ترتیب ہے آئین چمن ...

    مزید پڑھیے

    بانبی

    دوستی کہاں جائے؟ اس کی آستینوں سے بپھرے سانپ نکلے ہیں گتھ گئے ہیں منہ کھولے بین وجد کرتی ہے اور سپیرا ہنستا ہے

    مزید پڑھیے

    بنت ہمالہ

    آہ! گنگا یہ حسیں پیکر بلور ترا تیری ہر موج رواں جلوۂ مغرور ترا جور مغرب سے مگر دل ہے بہت چور ترا جھانکتا ہے ترے گرداب سے ناسور ترا ظلم ڈھائے ہیں سفینوں نے ستم گاروں کے زخم اب تک ترے سینے پہ ہیں پتواروں کے محو رہتے تھے ستارے تری مے پینے میں چاند منہ دیکھتا تھا تیرے ہی آئینے میں خلوت ...

    مزید پڑھیے

    بہرا گویا

    بلند آہنگیوں نے پھاڑ ڈالے کان کے پردے ہوں وہ مطرب جو خود اپنی صدا ہی سن نہیں سکتا ہوائیں لے اڑی ہیں سلسلے کو میرے نغموں کے میں ان بکھری ہوئی کڑیوں کو اپنی چن نہیں سکتا غرور خوش نوائی بوجھ سا ہے میری گردن پر زمانہ وجد میں ہے اور میں سر دھن نہیں سکتا

    مزید پڑھیے

    ساز مستقبل

    کتنے اصنام نا تراشیدہ پتھروں ہی میں کسمساتے ہیں کتنے ہی ناشگفتہ لالہ و گل ذہن بلبل کو گدگداتے ہیں کتنے ہی جلوہ ہائے نادیدہ ابھی پردے میں مسکراتے ہیں ناسرائیدہ کتنے ہی نغمے دل کے تاروں سے لپٹے جاتے ہیں کس نے چھیڑا ہے ساز مستقبل آج لمحات گنگناتے ہیں کس نے چھیڑا ہے ساز مستقبل آج ...

    مزید پڑھیے