Parvez Shahidi

پرویز شاہدی

پرویز شاہدی کی غزل

    شکایت کر رہے ہیں سجدہ ہائے رائیگاں مجھ سے

    شکایت کر رہے ہیں سجدہ ہائے رائیگاں مجھ سے نہ دیکھا جائے گا اب سوئے سنگ آستاں مجھ سے ہے کل کی بات شرمندہ تھا حسن رائیگاں مجھ سے یہ جلوے مانگتے تھے اک نگاہ مہرباں مجھ سے نظر رکھ کر قناعت کر رہا ہوں میں تصور پر یہ جلوے چاہتے ہیں اور کیا قربانیاں مجھ سے محبت میری بڑھ کر آ گئی ہے بد ...

    مزید پڑھیے

    تم خنک جذبہ ہو بے تابئ فن کیا جانو؟

    تم خنک جذبہ ہو بے تابئ فن کیا جانو؟ کیا گزرتی ہے دم فکر سخن کیا جانو؟ خون ہے دل میں تمہارے ابھی افسردہ خرام سرخ کیوں ہوتے ہیں رخسار چمن کیا جانو؟ میں ہوں کتنے قد و گیسو کے جہاں کا معمار سرگراں مجھ سے ہیں کیوں دار و رسن کیا جانو؟ تم تو کرتے ہو مری کلک سخن کو پابند کون ہے کاتب ...

    مزید پڑھیے

    موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا

    موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا شرط جینے کی لگا دی مجھے مرنے نہ دیا کم سے کم میں غم دنیا کو بھلا سکتا تھا پر تری یاد نے یہ کام بھی کرنے نہ دیا تیری غم خوار نگاہوں کے تصدق کہ مجھے غم ہستی کی بلندی سے اترنے نہ دیا وہ تری سرخیٔ عارض کہ قریب آ نہ سکی رنگ جس فکر کو بھی خون جگر نے نہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے

    دل کی دھڑکنوں سے اک داستاں بنانا ہے آپ کی نگاہوں کو ہم زباں بنانا ہے ماہ و خور اگانے ہیں کہکشاں بنانا ہے اے زمیں تجھی کو اب آسماں بنانا ہے گل فروش تھا مالی ہو گیا چمن خالی آج پتے پتے کو باغباں بنانا ہے اپنے سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں دے دو بجلیوں کی یورش میں آشیاں بنانا ہے باندھ ...

    مزید پڑھیے

    نپٹیں گے دل سے معرکۂ رہ گزر کے بعد

    نپٹیں گے دل سے معرکۂ رہ گزر کے بعد لیں گے سفر کا جائزہ ختم سفر کے بعد اٹھنے کو ان کی بزم میں سب کی نظر اٹھی اتنا مگر کہوں گا کہ میری نظر کے بعد سب زور ہو رہا ہے مری سرکشی پہ صرف کیا ہوگا حال دار و رسن میرے سر کے بعد کوئے ستم سے گزریں تو شوریدگان عشق ہنسنے لگیں گے زخم جگر زخم سر کے ...

    مزید پڑھیے

    سنا ہے ان کے لب پر کل تھا ذکر مختصر میرا

    سنا ہے ان کے لب پر کل تھا ذکر مختصر میرا تصور دے رہا ہے طول اسی کو کس قدر میرا یہ دل سوزیٔ درد آدمیت کیا قیامت ہے کسی کی آنکھ سے آنسو بہیں دامن ہو تر میرا تصور میکدے کا مشترک ہو کس طرح ناصح؟ خرد ساغر شکن تیری جنوں پیمانہ گر میرا یہی عالم رہا گر شوق کی آئینہ بندی کا! تو گم ہو جائے ...

    مزید پڑھیے

    بت گریٔ جمال میں گزرا

    بت گریٔ جمال میں گزرا عہد کفر ایک حال میں گزرا وقت گزرا جو بے خیالی میں وہ ترے ہی خیال میں گزرا کچھ کٹا وقت رنج دوری میں کچھ خیال وصال میں گزرا ہائے وہ زخم جن کا موسم گل دہشت اندمال میں گزرا پھر دھڑکنے لگا ہے دل اپنا کیا کہوں کیا خیال میں گزرا نگہ دوست کا بھی موسم لطف دل ہی کی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی نے فصل گل کو بھی پشیماں کر دیا

    زندگی نے فصل گل کو بھی پشیماں کر دیا جس بیاباں پر نظر ڈالی گلستاں کر دیا تو نے یہ کیا اے سکوت شکوہ ساماں کر دیا دل کی دل ہی میں رہی ان کو پشیماں کر دیا شکریہ اے موسم گل پاس وحشت ہے یہی گلستاں کو تو نے ہم دیوار زنداں کر دیا کتنے افسانے بنا کر رکھ لئے تھے شوق نے یوں نقاب الٹی حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    اے بے دلو حریف شب تار کیوں ہوئے

    اے بے دلو حریف شب تار کیوں ہوئے کچی اگر تھی نیند تو بیدار کیوں ہوئے صحرا کو آج کوستی پھرتی ہیں آندھیاں دیوانے گلستاں کے طرف دار کیوں ہوئے سست اعتباریوں کو نہیں تاب انتظار وعدے سحر کے صرف شب تار کیوں ہوئے شرما گیا چمن میں تبسم بہار کا ہم گل فروش زخم دل زار کیوں ہوئے کیا گلستاں ...

    مزید پڑھیے

    چھپ کر نہ رہ سکے نگہ اہل فن سے ہم

    چھپ کر نہ رہ سکے نگہ اہل فن سے ہم محفل میں جھانکتے ہیں نقاب سخن سے ہم کم بخت ڈھونڈھتی ہے محبت میں فلسفہ تنگ آ گئے ہیں عقل کے دیوانہ پن سے ہم تلخیٔ زندگی میں بھی پانے لگے مٹھاس عاجز ہیں اپنی فطرت کام و دہن سے ہم پیدا کیا ہوا ہے ہمارا ہی سب فروغ بیگانہ کچھ نہیں ہیں تری انجمن سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2