Mustafa Zaidi

مصطفی زیدی

تیغ الہ آبادی کے نام سے بھی مشہور، پاکستان میں سی ایس پی افسر تھے، پراسرار حالات میں قتل کیے گئے

Also known as Tegh Allahabadi, was a C.S.P officer in Pakistan, assassinated in mysterious circumstances.

مصطفی زیدی کی نظم

    ماہ و سال

    اسی روش پہ ہے قایم مزاج دیدہ و دل لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟ کسی کے جیب و گریباں کی آزمائش میں کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے ذرا سا وسوسۂ ماہ و سال آتا ہے؟ کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں غبار راہ گزر میں اجڑ گئی ہوں ...

    مزید پڑھیے

    مسافر

    مرے وطن تری خدمت میں لے کر آیا ہوں جگہ جگہ کے طلسمات دیس دیس کے رنگ پرانے ذہن کی راکھ اور نئے دلوں کی امنگ نہ دیکھ ایسی نگاہوں سے میرے خالی ہاتھ نہ یوں ہو میری تہی دامنی سے شرمندہ بسے ہوئے ہیں مرے دل میں سیکڑوں تحفے بہت سے غم کئی خوشیاں کئی انوکھے لوگ کہیں سے کیف ہی کیف اور کہیں سے ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس چاند کشکول گدائی کی طرح نادم ہے ایک اک سانس کسی نام کے ساتھ آتی ہے ایک اک لمحۂ آزاد نفس مجرم ہے کون یہ وقت کے گھونگھٹ سے بلاتا ہے مجھے کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب کون آیا ہے چڑھانے کو تمناؤں کے پھول ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے ...

    مزید پڑھیے

    آسماں زرد تھا

    اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا ہم تو مایوس ہوئے بیٹھے تھے صحراؤں میں اب ترا روپ بھی دھندلا سا چلا تھا دل میں تو بھی اک یاد سی تھی جملہ حسیناؤں میں تہہ بہ تہہ گرد سے آلود تھا دن کا دامن رات کا نام نہ آتا تھا تمناؤں میں رقص شبنم کی پرستار نگاہوں کے لیے دھوپ کے ابر تھے خورشید ...

    مزید پڑھیے

    تجرید

    زندگی میں ترے دروازے پر اک بھکاری کی طرح آیا تھا اپنے دامن کو بنا کر کشکول تیری ہر راہ پہ پھیلایا تھا ایک مرحوم کرن کی خاطر مجھ کو تھوڑی سی ضیا بھی نہ ملی دم بہ دم ڈوبتے سیارے کو اپنے مرکز سے صدا بھی نہ ملی دفعتاً ایک دھماکے کے ساتھ کچے دھاگوں کے سرے چھوٹ گئے انگلیاں چھل گئیں ...

    مزید پڑھیے

    ہار جیت

    میری بن جانے پہ آمادہ ہے وہ جان حیات جو کسی اور سے پیمان وفا رکھتی ہے میرے آغوش میں آنے کے لئے راضی ہے جو کسی اور کو سینے میں چھپا رکھتی ہے شاعری ہی نہیں کچھ باعث عزت مجھ کو اور بہت کچھ حسد و رشک کے اسباب میں ہے مجھ کو حاصل ہے وہ معیار شب و روز کہ جو اس کے محبوب کے ہاتوں میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تری ہنسی

    فلک کا ایک تقاضا تھا ابن آدم سے سلگ سلگ کے رہے اور پلک جھپک نہ سکے ترس رہا ہو فضا کا مہیب سناٹا سڈول پاؤں کی پائل مگر چھنک نہ سکے کلی کے اذن تبسم کے ساتھ شرط یہ ہے کہ دیر تک کسی آغوش میں مہک نہ سکے میں سوچتا ہوں کہ یہ تیری بے حجاب ہنسی! مزاج زیست سے اس درجہ مختلف کیوں ہے یہ ایک شمع ...

    مزید پڑھیے

    مری پتھر آنکھیں

    اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی سبز پتوں کی کہانی رخ شاداب کی بات کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئی مبہم تحریر اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی بوند بھر نم کو ترس جائے گی بے سود دعا نم اگر ہوگی کوئی چیز تو میری آنکھیں میرا اجڑا ہوا چہرہ مری پتھر آنکھیں قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر ...

    مزید پڑھیے

    بزدل

    آج اک افسروں کے حلقے میں ایک معتوب ماتحت آیا اپنے افکار کا حساب لیے اپنے ایمان کی کتاب لیے ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی افسروں کے لطیف لہجے میں قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی یہ ہر اک دن کا واقعہ، اس دن صرف اس اہمیت کا حامل تھا کہ شرافت کے زعم کے با وصف میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    پہلا پتھر

    صبا ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا بصد تشکر و اخلاص و حسن و خوش ادبی کہ جو سلوک بھی ہم پر روا ہوا اس میں نہ کوئی رمز نہاں ہے، نہ کوئی بوالعجبی ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی کہ حرف آئے ستاروں پہ بے چراغی کا لباس چاک پہ تہمت قبائے زریں کی دل شکستہ پہ الزام بد دماغی کا صبا جو راہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3