ماہ و سال
اسی روش پہ ہے قایم مزاج دیدہ و دل لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟ کسی کے جیب و گریباں کی آزمائش میں کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے ذرا سا وسوسۂ ماہ و سال آتا ہے؟ کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں غبار راہ گزر میں اجڑ گئی ہوں ...