Mustafa Zaidi

مصطفی زیدی

تیغ الہ آبادی کے نام سے بھی مشہور، پاکستان میں سی ایس پی افسر تھے، پراسرار حالات میں قتل کیے گئے

Also known as Tegh Allahabadi, was a C.S.P officer in Pakistan, assassinated in mysterious circumstances.

مصطفی زیدی کی غزل

    جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا

    جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا کوئی تو غم گسار تھا کوئی تو دوست تھا اب کس کے پاس جائیں کہ ویرانہ چھٹ گیا دنیا تمام چھٹ گئی پیمانے کے لیے وہ مے کدے میں آئے تو پیمانہ چھٹ گیا کیا تیز پا تھے دن کی تمازت کے قافلے ہاتھوں سے رشتۂ شب افسانہ چھٹ ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکدر اسی گھر میں

    بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکدر اسی گھر میں اترا تھا مرا ماہ منور اسی گھر میں اے سانس کی خوشبو لب و عارض کے پسینے کھولا تھا مرے دوست نے بستر اسی گھر میں چٹکی تھیں اسی کنج میں اس ہونٹ کی کلیاں مہکے تھے وہ اوقات میسر اسی گھر میں افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی اشعار در اشعار تھا ہر ...

    مزید پڑھیے

    آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا

    آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا دل جس سے مل گیا وہ دوبارا نہیں ملا ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا قدموں کو شوق آبلہ پائی تو مل گیا لیکن بہ ظرف وسعت صحرا نہیں ملا کنعاں میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے

    کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے تجھے جو پا نہ سکے زیست کو سنوار آئے تھا جس پہ وعدۂ فردوس و عاقبت کا مدار وہ رات ہم سر کوئے بتاں گزار آئے ترے خیال پہ شب خوں تو خیر کیا کرتے بہت ہوا تو اک اوچھا سا ہات مار آئے متاع دل ہی بچی تھی بس اک زمانے سے سو ہم اسے بھی تری انجمن میں ہار آئے بڑے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا

    کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا قلزم نے بڑھ کے چوم لیے پھول سے قدم دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا اک موج خون خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی اک طوق فرد جرم تھا کس کے گلے میں تھا اک رشتۂ وفا تھا سو کس نا شناس سے اک درد حرز جاں تھا سو کس کے صلے ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے

    اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے تو بھی منجملۂ اسباب پریشانی ہے مجھ کو اس شہر سے کچھ دور ٹھہر جانے دو میرے ہمراہ مری بے سر و سامانی ہے آنکھ جھک جاتی ہے جب بند قبا کھلتے ہیں تجھ میں اٹھتے ہوئے خورشید کی عریانی ہے اک ترا لمحۂ اقرار نہیں مر سکتہ اور ہر لمحہ زمانے کی طرح فانی ...

    مزید پڑھیے

    فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی

    فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی اترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی میں ایک اعتبار سے آتش پرست تھا وہ سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی وہ نازش ستارہ و طنار ماہتاب گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی وہ ہم جلیس سانحۂ ...

    مزید پڑھیے

    بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا

    بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا کھل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا در توبہ سے بگولوں کی طرح گزرے لوگ ابر کی طرح امڈ آئے جو مے خانہ کھلا شہر در شہر پھری مری گناہوں کی بیاض بعض نظروں پہ مرا سوز حکیمانہ کھلا نازنینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی لاکھ پہروں میں بھی دروازے پہ ...

    مزید پڑھیے

    تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں

    تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں خلا سے ربط بڑھایا ہوا سے باتیں کیں کبھی ستاروں نے بھیجا ہمیں کوئی پیغام تو مدتوں میں کسی آشنا سے باتیں کیں ہماری خیر مناؤ کہ آج خود اس نے بڑے خلوص بڑی التجا سے باتیں کیں گناہگار تو رمز حریم تک پہنچے ثواب والوں نے بانگ درا سے باتیں کیں بہت ...

    مزید پڑھیے

    قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ

    قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ زوال عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ غم حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا نگار شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ خود اپنی آنچ میں جلتا ہے چاندنی کا بدن کسی کے نرم خنک گیسوؤں کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4