واقعہ کربلا اور شہادت امام حسینؓ کے متعلق سید ابوالاعلٰی مودودیؒ کیا کہتے ہیں؟؟
یہ امر واقعہ ہے کہ وہ کوئی فوج لے کر نہیں جارہے تھے، بلکہ ان کے ساتھ ان کے بال بچے تھے، اور صرف 32 سوار اور 40 پیادے۔ اسے کوئی شخص بھی فوجی چڑھائی نہیں کہہ سکتا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ وہ کوئی فوج لے کر نہیں جارہے تھے، بلکہ ان کے ساتھ ان کے بال بچے تھے، اور صرف 32 سوار اور 40 پیادے۔ اسے کوئی شخص بھی فوجی چڑھائی نہیں کہہ سکتا۔
اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملتِ اسلام جاہل بدوؤں میں پیدا ہوئی تھی۔ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے وہ موزوں نہ تھی۔ نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ و جنت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ قرآن کا کلامِ الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستعبد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی، البتہ تناسخ ہر آئینہ ممکن و اقرب الی الصواب۔ معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا۔ ذاتِ نبوی پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصاً آپؐ کی ازواج کے تعدد اور آپؐ کے غزوات و سرایات پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔
ہم کو خیر امت جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard ) کی حیثیت سے لگے رہیں،بلکہ ہمارا کام امامت و رہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر امت ہونے کا راز "اخرجت للناس "میں پوشیدہ ہے۔
آپﷺ کے اخلاق اور آپﷺ کی ہدایات سے سبق حاصل کرو اور کم از کم آپ کی تعلیم کا اتنا چرچا تو کرو کہ سال بھر تک اس کا اثر باقی رہے ۔ اس طرح یادگار مناؤ گے تو حقیقت میں یہ ثابت ہوگا کہ تم یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے عید سمجھتے ہو اور اگر صرف کھا پی کر اور دل لگیاں ہی کر کے رہ گئے تو یہ مسلمانوں کی سی عید نہ ہوگی ، بلکہ جاہلوں کی سی عید ہوگی ، جس کی کوئی وقعت نہیں۔