Mohsin Naqvi

محسن نقوی

مقبول پاکستانی شاعر، کم عمری میں وفات

Popular pakistani poet who died Young.

محسن نقوی کی غزل

    جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

    جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا میرے حال پہ حیرت ...

    مزید پڑھیے

    اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

    اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں موسم زرد میں اک دل کو بچاؤں کیسے ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں اب کوئی کیا مرے قدموں کے نشاں ڈھونڈے گا تیز آندھی میں ...

    مزید پڑھیے

    اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام

    اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ...

    مزید پڑھیے

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا

    جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اس کے گرد میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا شاید کہ فصل سنگ زنی کچھ قریب ہے وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے ...

    مزید پڑھیے

    میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا

    میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا ...

    مزید پڑھیے

    اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا

    اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا برگ گل کو خاک شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا جب کوئی سمت سفر طے تھی نہ حد رہ گزر اے مرے رہ رو سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی

    خود اپنے دل میں خراشیں اتارنا ہوں گی ابھی تو جاگ کے راتیں گزارنا ہوں گی ترے لیے مجھے ہنس ہنس کے بولنا ہوگا مرے لیے تجھے زلفیں سنوارنا ہوں گی تری صدا سے تجھی کو تراشنا ہوگا ہوا کی چاپ سے شکلیں ابھارنا ہوں گی ابھی تو تیری طبیعت کو جیتنے کے لیے دل و نگاہ کی شرطیں بھی ہارنا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے تنہائی کے لمحوں میں کبھی ...

    مزید پڑھیے

    سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں

    سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں وصل کے شہر کی روشنی ایک تو ہجر کے دشت میں کارواں ایک میں بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر اپنی بستی میں کچا مکاں ایک میں حسرتوں سے اٹے آسماں کے تلے جلتی بجھتی ہوئی کہکشاں ایک میں مجھ کو فارغ دنوں کی امانت سمجھ بھولی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5