Mohsin Naqvi

محسن نقوی

مقبول پاکستانی شاعر، کم عمری میں وفات

Popular pakistani poet who died Young.

محسن نقوی کی غزل

    عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر

    عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر شب فراق مری آنکھ کو تھکن سے بچا کہ نیند وار نہ کر دے تری سہیلی پر وہ بے وفا تھا تو پھر اتنا مہرباں کیوں تھا بچھڑ کے اس سے میں سوچوں اسی پہیلی پر جلا نہ گھر ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر ...

    مزید پڑھیے

    میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی

    میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی مجھے خود سے بھی وحشت ہو رہی تھی اسے جکڑا ہوا تھا زندگی نے سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی کھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی مرے رستے میں کانٹے بو رہی تھی مجھے بھی نارسائی کا ثمر دے مجھے تیری تمنا جو رہی تھی مرا قاتل مرے اندر چھپا تھا مگر بد نام خلقت ہو ...

    مزید پڑھیے

    بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا

    بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا اداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا حیات اب شام غم کی تشیبہ خود بنے گی تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں

    اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھوں کو پی رہا ہوں تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر کوئی بتائے میں مر ...

    مزید پڑھیے

    زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں

    زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں ستاروں سے حسد کی انتہا ہے میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا میں تجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا

    میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا وہ سنگ لفظ پھینک کے کتنا اداس تھا اکثر مری قبا پہ ہنسی آ گئی جسے کل مل گیا تو وہ بھی دریدہ لباس تھا میں ڈھونڈھتا تھا دور خلاؤں میں ایک جسم چہروں کا اک ہجوم مرے آس پاس تھا تم خوش تھے پتھروں کو خدا جان کے مگر مجھ کو یقین ہے وہ تمہارا قیاس ...

    مزید پڑھیے

    کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر

    کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأت اظہار پر شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول میں نے دیکھا ہے نیا ...

    مزید پڑھیے

    فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا

    فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا یہ دل کہ قحط انا سے غریب ٹھہرا ہے مری زباں کو زر التماس کیا دے گا جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا یہ شہر یوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں دلوں کا شور ہوا کو ہراس کیا دے گا وہ ...

    مزید پڑھیے

    لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی

    لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی ابھی تو خود سے تقاضے تھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5